Maktaba Wahhabi

73 - 492
شیطان دعوت دیتا ہے اور اس نے اکیلے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کی اور اس نے دل سے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جس پر وہ ثابت قدم اور صراط مستقیم پر گامزن رہے گا… طاغوت سے مراد ہر وہ شر ہے جس پر جاہلیت کے دور میں لوگ قائم تھے مثلا بتوں کی پوجا کرنا ، ان کو حَکَم(فیصلہ کرنے والا)تسلیم کرنا اور ان سے مدد طلب کرنا۔ (العروۃ الوثقی)کے بارے میں سعید بن جبیر رحمہ اللہ اور الضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہے۔[1] 4۔یہی کلمہ(کلمۃ التقوی)ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کیلئے لازم قرار دیا اور وہ اس کے زیادہ حقدار اور اس کے اہل تھے۔فرمان الٰہی ہے: ﴿ إِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤمِنِیْنَ وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا ﴾ ’’ جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کے تعصب کو جگایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنا سکون اتارا اور انھیں تقوی والے کلمہ پر قائم رکھا۔اور یہ لوگ اس کے سب سے زیادہ حقدار اور سزاوار تھے۔اور اللہ ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔‘‘ [2] ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ نے کہا:(لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ)سے بہتر کوئی بات نہیں۔تو سعد بن عیاض رحمہ اللہ نے کہا:اے ابو عبد اللہ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کلمہ کیا ہے ؟ یہی تقوی والا کلمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کیلئے لازم قرار دیا ، چنانچہ انھوں نے اس پر قائم رہ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعتا اس کے اہل تھے۔ 5۔ کلمہ طیبہ ہی دعوتِ حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ لَہُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لاَ یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَییْئٍ إِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ إِلَی الْمَائِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ وَمَا دُعَائُ الْکَافِرِیْنَ إِلَّا فِیْ ضَلاَلٍ ﴾ ’’ صرف اسی کو پکارنا حق ہے۔ اور جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی کوئی حاجت پوری نہیں کرتے۔ان کی حالت اس آدمی کی سی ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے ، حالانکہ وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ا ور کافروں کا اپنے معبودوں کو پکارنا رائیگاں ہی جاتا ہے ‘‘۔[3] الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:
Flag Counter