Maktaba Wahhabi

24 - 69
ہمیں افسوس ہے کہ موصوف کی اردو کیونکہ کمزور ہے اور لکھنے لکھانے کا انھیں ملکہ بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لئے بسا اوقات بڑی عجیب کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مو صوف نے پردے کے صحیح مفہوم سے ہیجانی کیفیت کے پیدا ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے ہیجانی کیفیت تو عدم پردہ کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ موصوف عورت کی محبت کی بیماری میں اس طرح مبتلا ہیں کہ اس مصرعہ کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔ بک رہا ہوں جنون میں کیا کیا کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی موصوف (۱۵سو سال کے عرصے میں ) واحد شخص ہیں، جنہوں نے ماڈرن ازم کی فحاشی کو سپورٹ کرنے کے لیے یہ انکشاف کیا ہے کہ مروجہ دین میں پردہ کا تصور اس تصور سے مختلف ہے، جو قرآن وسنت کی شکل میں ہے ۔ یہ انکشاف کس اشارے پر کیا گیا ہے، یہ راز صرف موصوف ہی جانتے ہیں ۔ یہ بھی خوب لکھا ہے کہ یہ مسئلہ ازل سے اختلافی ہے ۔سبحان اللہ کیا مبلغ علم ہے جناب کا ‘اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ازلی اختلاف کو جناب کی ذات والا صفات غیر ازلیہ ختم کر سکتی ہے؟اگر نہیں توپھرانتشار کیوں برپا کیا؟ کیا لفظ ازل کی حقیقت موصوف جانتے ہیں؟ موصوف نے چہرے کے پردے سے متعلق لکھا ہے کہ قرآن میں صریح الفاظ میں نہیں ملتا۔ تو کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جناب کیا غیر صریح الفاظ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔آپ وہ غیر صریح آیت بتا دیں ہم اس سے استدلال کر کے آپ سے چہرے کا پردہ کروالیں گے۔ ان شاء اللہ قصہ مریم سے استدلال بھی جناب کو مفید نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ (شرع من قبلنا) ہم سے قبل کی شریعت ہے اور ہم اپنی ہی شریعت کے تابع ہیں۔ لکل جعلنا منکم شرعة و منھاجاً د وسری بات یہ ہے کہ جناب نے تمام عورتوں کی قید کے ساتھ اس قصہ کو لکھا ہے تو کیا بتانا گوارہ کریں گے یہ قید کس آ یت قرآنی میں وارد ہوئی ہے؟ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ جان پہچان والوں کو انسان بنا چہرہ دیکھے ہی پہچان وجان لیتا ہے۔ خواہ وہ پردے ہی میں کیوں نہ ہو، اسکی پہچان کے قرائن ہوتے ہیں جو اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ یہ فلان ہے۔
Flag Counter