Maktaba Wahhabi

42 - 69
میں دیدے تو پھر مالک کو اس سے دوسری خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے، لیکن جنسی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔ ۵…جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پرچار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعدادپرنہیں لگائی۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنالیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔ ۶…حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا ،وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔ (تفہیم القرآن ملخصاً)۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: لونڈیوں کا مسئلہ بھی دراصل تعدد ازواج کا تتمہ ہے۔ چنانچہ وہی سورہ نساء کی آیت ۳ جو تعددازواج کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ لونڈیوں کی اباحت پر بھی دلالت کرتی ہے۔ اس آیت کاآخری ٹکڑا یوں ہے: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان بیویوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی کافی ہے یا پھر جو تمہاری لونڈیاں ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام سے پیشتر عرب کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی غلام اورلونڈیوں کی عام تجارت ہوتی تھی اور اسلام نے اسے بتدریج کم کرنے کے اقدامات کئے ہیں اوراحادیث میں آزاد آدمی کو غلام بنانے اور اس کی خریدو فروخت پر سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی آزاد آدمی کو غلام بنائے اس کے خلاف قیامت کومیں خود استغاثہ کروں گا (بخاری بحوالہ مشکوٰة) مگر جہاں تک جنگی قیدیوں کے غلام یا لونڈی بنانے کا تعلق ہے۔ اس کے جرم یا حرام ہونے کے متعلق ہمیں کوئی نص قطعی نہیں مل سکی۔ بلکہ اس کی تائید میں کئی آیات مل جاتی ہیں۔
Flag Counter