Maktaba Wahhabi

43 - 69
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ ٰاتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ وَ مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْکَ (احزاب) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہارے لئے تمہاری وہ بیویاں بھی حلال کردی ہیں جن کے حق مہر آپ اداکرچکے ہیں اور تمہاری وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے تمہیں کفار سے مال غنیمت کے طور پر دلوائی ہیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگی قیدیوں میں سے حاصل ہونے والی لونڈیاں جو حکومت کی وساطت سے ملتی ہیں۔ ان کا حق مہر کچھ نہیں ہوتا اور وہ حلال ہوتی ہیں۔ اب اگر یہ لونڈیوں کا جواز اسلام کے چہرہ پر اتنا ہی بدنما داغ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت کیوں دی جو ساری اُمت کے لئے اُسوہ حسنۂ ہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر اسلام کی نگاہ میں لونڈی غلاموں کا وجود ایک مذموم فعل ہے تو اسے حکماًبندکیوں نہ کیاگیا۔ تو میرے خیال میں اس کی درج ذیل وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ۱…رخصت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ اور رحمت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین تھے اور وہ اس طرح لونڈی اور غلام بنانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود جنگ خیبرمیں ایسا موقع بن ہی گیا۔ تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ تا قیامت مسلمانوں کو اب کوئی واقعہ پیش آہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اللہ کی طرف سے اس رخصت کو مطعون کرنے کے بجائے اس کاانعام ہی سمجھنا چاہیے۔اب اگر اس رخصت سے مسلمان ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یا کوئی اسلام دشمن اس رخصت کو غلط جامہ پہنا کر لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا چاہتا ہے تو اس میں اسلام کاکیا قصورہے۔ ۲…غلام اور لونڈیوں سے فائدہ حاصل کرنا بھی ایک رخصت ہے۔ حکم نہیں اب اگر آج کے دور میں اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تو اس رخصت سے زندگی بھر فائدہ نہ اٹھانے سے دین میں کون سی کمی آجائے گی۔ ۳…ان دنوں محکمہ جیل یا جیل کے لئے بڑے احاطے اور اس کا انتظام تو تھا نہیں۔لہٰذا مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے بغیر کوئی دوسرا چارہ بھی نہ تھا۔ اور جب مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا تو پھر فحاشی
Flag Counter