Maktaba Wahhabi

47 - 69
تعداد ازواج اور لونڈیاں سوال: حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لئے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں: وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (سورہ النساء آیت نمبر۳) دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو، اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کرسکے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بیویوں کے متعلق تو تعداد کی قید ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار بیویاں کی جا سکتی ہیں، لیکن لونڈیوں کے ساتھ تعلقات زن وشوئی قائم کرنے کے بارے میں ان کی تعداد کے متعلق کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ جنگ کے زمانہ میں جو عورتیں پکڑی ہوئی آئیں گی، ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکتا، اس لئے لونڈیوں سے تمتع حاصل کرنے کے متعلق بھی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا۔ تو میں یہ عرض کروں گا کہ بے شک یہ صحیح ہے اور اس لحاظ سے یہ تعین بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کے حصے میں کتنی لونڈیاں آئیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے حصہ میں دس آئیں اور دوسرے کے حصہ میں بیس۔ لیکن جہاں تک ان لونڈیوں سے تمتع کا تعلق ہے، اس کا تعین تو بہرحال ہو سکتا تھا، کہ ایک شخص کے پاس لونڈیاں چاہے کتنی ہی ہوں، وہ ان میں سے صرف ایک یا دو سے تمتع کر سکتا ہے، جیسا کہ بیویوں کی صورت میں تحدید ہے۔ اس آزادی کے ہوتے ہوئے ایک شخص نہ صرف یہ کہ مال غنیمت میں حصہ کے طور پر بہت سی لونڈیاں حاصل کرسکتا ہے، بلکہ وہ ان کی جتنی تعداد چاہے خرید بھی سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک نفس پرست سرمایہ دار کے لئے کھلا ہوا موقع ہے کہ وہ جتنی لونڈیاں چاہے خریدے اور ہوس رانی کرتا رہے۔ لونڈیوں سے بلاتعین تعداد، تمتع کرنے کی کھلی ہوئی اور عام اجازت دینے کیوجہ سے معاشرہ کے اندر وہی
Flag Counter