Maktaba Wahhabi

48 - 69
خرابی داخل ہوجاتی ہے، جس کو اسلام نے زنا کہہ کر سخت سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہی سبب تھا کہ جوں جوں مسلمانوں کی سلطنتیں وسیع ہوئیں اور ان کی دولت میں اضافہ ہوا، مسلم سوسائٹی میں رجم کی سزا کے جاری ہونے کے باوجود ہوس رانی بڑھتی گئی۔ کوئی قانون ایسا نہ تھا، جو اس خرابی کا انسداد کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم خلفائے بنواُمیہ اور بنو عباسیہ کے حرم میں لونڈیوں کے غول کے غول پھرتے دیکھتے ہیں اور پھر تاریخوں میں ان ذلیل سازشوں کا حال پڑھتے ہیں، جو لونڈی غلاموں کے ذریعے پروان چڑھتی تھیں۔ پس میری رائے یہ ہے کہ اگر لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت بھی بہ تعین تعداد ہوتی تو مسلم معاشرہ میں وہ مفاسد اور نفس پرستیاں نہ پیدا ہوتیں، جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ بہرحال ارشاد فرمایا جائے کہ شارع نے کن وجوہ و مصالح کی بنا پر لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دیتے ہوئے تعداد کا تعین نہیں کیا؟ اسی ضمن میں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر لونڈی مشترکہ ہو تو کیا اس کے ساتھ تمتع جائز ہے؟ جواب1: آیت وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتَامٰی پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن میں نوٹ لکھ چکا ہوں۔ اس کے اعادے کی حاجت نہیں۔ آپ اسے ملاحظہ فرمائیں۔ جہاں تک خود اس آیت 1 اس طرح کے سوالات اور ان کے جوابات سے لوگ بسا اوقات یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید یہ مسائل حال یا مستقبل کے لئے زیر بحث آرہے ہیں۔ حالانکہ دراصل ان سوالات کا تعلق اس دور کے حالات سے ہے جبکہ دنیا میں اسیران جنگ کے تبادلہ کا طریقہ رائج نہ ہوا تھا اور فدیے پر سمجھوتا کرنا بھی دشمن سلطنتوں کے لئے مشکل ہوتا تھا۔ آج کل ان مسائل پر بحث کرنے کی غرض یہ نہیں ہے کہ ہم اب لونڈیوں کی تجارت کا بازار کھولنا چاہتے ہیں بلکہ اس کی غرض یہ بتانا ہے کہ جس دور میں اسیران جنگ کا تبادلہ اور فدیے کا معاملہ نہیں ہو سکتا تھا، اس زمانہ میں اسلام نے اس پیچیدہ مسئلہ کو کس طرح حل کیا تھا۔ نیز اس کی غرض ان اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نا واقف لوگوں کی طرف سے اسلام کے اس حل پر کئے جاتے ہیں۔ ہم نے جب کبھی اس مسئلے (گذشتہ سے پیوستہ) سے بحث کی ہے، اسی غرض سے کی ہے مگر افسوس ہے کہ فتنہ پرداز لوگ جان بوجھ کر اسے یہ معنی پہناتے ہیں کہ ہم آج اس زمانہ میں بھی غلامی ہی کے طریقے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، خواہ اسیران جنگ کا تبادلہ اور فدیہ ممکن ہو یا نہ ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کسی غلط فہمی کی بناء پر نہیں کہتے ہیں اور ہم ان سے اتنی حیا داری کی توقع بھی نہیں رکھتے کہ وہ ہماری اس تصریح کے بعد اپنی الزام تراشیوں سے باز آجائیں گے۔ تاہم یہ تصریح صرف اسی لئے کی جارہی ہے کہ جو لوگ ان کی باتوں سے کسی غلط فہمی میں پڑگئے ہیں، ان کی غلط فہمی دور ہوسکے۔
Flag Counter