Maktaba Wahhabi

124 - 677
کے ساتھ متصل ہیں ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے باپ کے ساتھ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں نہیں فرمایا کہ ابوبکر کے ساتھ۔ گویا ابوبکر کے ساتھ آپ کے محبت کی گواہی میں ہماری امی جان کی محبت کی گواہی بھی شامل ہے۔ گویا صدیق امت کی لفظی تعبیر کے لیے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کہنا کافی ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام نہیں لیا۔ ہماری والدہ محترمہ کی قدر و منزلت کی وضاحت لیے کیسا ادبی و بلاغی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ و ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشآء۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امی جان سے اس قدر محبت کا اعلان فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ حافظ ابو عبداللہ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شدید محبت کرتے تھے جس کا اظہار بھی کیا کرتے۔‘‘[1] ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَأْمُرُنِیْ اَنْ أَسْتَرْقِیَ مِنَ الْعَیْنِ)) [2] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نظر بد سے دم کروانے کا حکم دیا کرتے تھے۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کی محبت اس درجہ پہنچ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں اس قدر خوف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں نظر بد سے دم کروانے کا مشورہ دیا کرتے۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کھیلنے کی فرصت مہیا کرتے تھے اور انھیں اس مشغولیت سے روکتے نہ تھے۔ بلکہ آپ ان کو کھیلتا دیکھ کر خوش ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا مسکراتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھیں مبارک ظاہر ہو جاتیں ۔‘‘[3] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی اور میری چند سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں ۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھرمیں آتے تو وہ چھپ جایا کرتی تھیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو باری باری میری طرف کھسکا دیتے پھر وہ میرے ساتھ کھیلنے لگ جاتیں ۔‘‘[4]
Flag Counter