Maktaba Wahhabi

157 - 677
امہات المومنین رضی ا للہ عنہن کی خدمت و عزت و احترام میں کوشاں رہے۔ ان دنوں میں فسادیوں اور شورش پسندوں کا مدینہ منورہ پر غلبہ ہو گیا اور ان کی خباثتوں میں یہاں تک اضافہ ہو گیا کہ جب ہماری امی سیّدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عثمان رضی اللہ عنہ تک جبکہ وہ اپنے گھر میں محصور تھے، پانی پہنچانے کی کوشش کی تو ان ظالموں نے بڑھ کر اس خچر کی رسیاں کاٹ ڈالیں جس پر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے پانی لا رہی تھیں اور ممکن تھا کہ وہ خود بھی خچر سے گر پڑتیں ۔[1] لیکن اس سے پہلے وہاں لوگ جمع ہو گئے اور انھوں نے شر پسندوں کو اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل سے باز رکھا۔ پھر لوگوں کے دلوں میں مفسدوں کی شر انگیزیوں کے باعث خوف چھا گیا اور اکثر لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ اس سال جب حج کے ایام شروع ہوئے تو ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج پر روانہ ہوئیں ۔ کسی نے کہا: اگر آپ مدینہ میں رہتیں تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ انھوں نے جواب دیا اگر میں مدینہ میں ہوتی تو مجھے اندیشہ تھا کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا جو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج کے بعد مدینہ منورہ واپس آ رہی تھیں تو انھیں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی افسوس ناک خبر راستے میں مل گئی۔ وہ وہاں سے مکہ واپس چلی گئیں وہ بالکل خاموش تھیں ۔ بالآخر انھوں نے مسجد حرام میں داخل ہو کر حطیم کے اندر اپنے آپ کو چھپا لیا۔ جب لوگ ادھر آئے تو انھیں یوں مخاطب کیا: ’’اے لوگو! مختلف شہروں اور چشموں سے سازشی لوگ[3] آئے اور مدینہ میں رہنے والے غلاموں کو ساتھ ملایا اور اس سے پہلے بھی نو عمر لوگ ایسی سازش کے لیے استعمال ہو چکے تھے۔ اگرچہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اصلاح احوال کی بھرپور کوشش کی۔ متعدد معاملات میں ایسے اقدام کیے کہ ان کے علاوہ چارہ نہ تھا۔ تو ان کی ان کاوشوں اور اصلاحات کو بہانہ بنا کر شورش پسندوں نے سازش کو عملی جامہ پہنایا اور جب وہ دلائل اور حجت کے میدان میں لاجواب[4] ہو گئے اور ان کا باطل پر جمع ہونا ثابت ہو گیا تو انھوں نے حدود سے تجاوز کرنے میں جلدی کی۔ چنانچہ وہ حرمت والے شہر میں ، حرمت والے مہینوں میں ایک حرام خون بہانے کے مرتکب ہو گئے۔ انھوں نے حرمت والا شہر اپنے لیے حلال کر لیا اور حرام طریقے سے اموال لوٹے۔ اللہ کی
Flag Counter