Maktaba Wahhabi

208 - 677
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مجموعی اوصاف میں سے تواضع ایک گراں قدر اور نمایاں وصف اور ان کی فطری خوبیوں اور خصوصیات میں سے ایک فطری خوبی اور خصوصیت تھی۔ اسی وجہ سے کبھی ان کے دل میں یہ سوچ پیدا نہ ہوئی کہ ان کے بارے میں ہمیشہ پڑھا جانے والا قرآن نازل ہو گا۔ جس میں بہتان تراشوں کے بہتانوں سے ان کی براء ت کا اعلان و اظہار ہو گا بلکہ زیادہ سے زیادہ وہ یہ سوچتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خواب دکھائی دے گا جس سے ان کی براء ت ثابت ہو جائے گی۔ اس لیے وہ فرمایا کرتی تھیں : ’’اللہ کی قسم! میں نے کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں وحی نازل کرنے والا ہے جس کی تلاوت کی جائے گی۔ یقیناً میرے دل میں میرا معاملہ اس سے بہت کم اہمیت رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں کلام کرے گا اور اس کی تلاوت کی جائے گی۔ لیکن میں امید کرتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھیں گے اور اس کے ذریعے سے اللہ مجھے بری کر دے گا۔‘‘[1] امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’آپ ذرا غور کریں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قدر تواضع اور اپنے نفس کی حقارت کے اعلان کے بعد اللہ تعالیٰ نے شرف اور تکریم میں انھیں کس قدر رفعت شان عطا کی۔ جبکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ میرے دل میں میرا معاملہ اس سے کہیں زیادہ حقیر تھا کہ اللہ تعالیٰ بزبانِ وحی میرے معاملے پر کلام کرے گا اور اس کی (تاقیامت) تلاوت کی جائے گی۔ ہاں ! میں اس قدر ضرور امید کرتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے میری براء ت کر دے گا۔ تو یہ صدیقہ الامہ، ام المومنین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی کے الفاظ ہیں ۔ حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ وہ بہتان سے بری ہیں اور مظلوم ہیں ، مزید یہ کہ ان پر تہمت لگانے والے جھوٹے اور ظالم ہیں اور ان کی اذیت ان کے ماں باپ سے آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پھیل چکی ہے۔ پھر بھی وہ اپنے نفس کو اس قدر حقارت کے ساتھ پیش کر رہی ہیں اور اپنے معاملے کو اس قدر معمولی بنا کر بیان کر رہی ہیں رضی اللہ عنہا ۔‘‘[2] ٭٭٭
Flag Counter