Maktaba Wahhabi

226 - 677
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عقیدے کے مسائل دلائل کے ساتھ ثابت کرتی تھیں ۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی نفی کرنا تھا۔ اسی طرح جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر کسی سے علم غیب کی نفی کی تو آیت قرآنی سے ثابت کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے رب کی رسالت کو مکمل طریقے سے پہنچانے کی بات کو انھوں نے فرمانِ الٰہی سے ثابت کیا۔ وہ فرماتی ہیں : ’’تین میں سے جو ایک بات بھی کہے وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولتا ہے....۔‘‘ [1] اسی طرح جب آپ رضی اللہ عنہا سے ’’الکوثر‘‘ کے متعلق دریافت کیا گیا، جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾ (الکوثر: ۱) ’’بلاشبہ ہم نے تجھے کوثر عطا کی۔ ‘‘ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’یہ ایک دریا ہے جو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے۔ اس کے دونوں ساحلوں پر خالی موتی کے خیمے ہیں اور اس کا پانی پینے کے لیے ستاروں کی تعداد میں جام ہیں ۔‘‘[2] تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے جو فضائل و منزلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں ، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی معترف تھیں اور جب کوئی ان پر دشنام طرازی کرتا، یا ان کی شان میں کمی کرتا، وہ اس کا فوراً ردّ فرماتیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناموس کا ہمیشہ دفاع کرتیں ۔ جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ اہل عراق و مصر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اور اہل شام سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے ہیں اور خوارج دونوں (عثمان و علی رضی ا للہ عنہما ) کو گالیاں دیتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ان لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے استغفار کریں لیکن وہ انھیں گالیاں دیتے ہیں ۔‘‘[3] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجوزہ فضائل و محاسن کی معترف تھیں لیکن ان کی شان میں کبھی غلو نہ کرتیں ۔ چنانچہ صحیحین میں حدیث موجود ہے کہ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
Flag Counter