Maktaba Wahhabi

288 - 677
روکتا۔ میں تمھیں بتلاتی ہوں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اے اللہ! جس کے سپرد میری امت کا کوئی معاملہ ہوا اور اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس پر سختی کر اور جس کے سپرد میری امت کا کوئی معاملہ ہوا اور اس نے ان پر نرمی کی تو تُو بھی اس پر نرمی کر۔‘‘[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اسلوب دعوت الی اللہ میں مواعظہ حسنہ کے ساتھ نمایاں ہوا اور یہ اس لیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و سنن کی حافظہ بھی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں فصاحت لسان، بلاغت نطق اور خطابت کا خصوصی ملکہ عطا ہوا تھا جو کہ دعوت الی اللہ کے لیے مواعظہ حسنہ کے ساتھ سب سے عمدہ اسلوب سمجھا جاتا ہے۔ احنف بن قیس کا قول پہلے گزر چکا ہے کہ: ’’میں نے سیّدنا ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد والے خلفاء کے خطبات سنے، میں نے اتنا عمدہ اور احسن کلام کسی انسان کے منہ سے نہیں سنا جتنا خوبصورت کلام میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے منہ سے سنا۔‘‘ موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں :’’میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑا فصیح نہیں دیکھا۔‘‘[2] سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ا للہ عنہما نے زیاد[3] سے پوچھا: لوگوں میں سے سب سے بڑا بلیغ کون ہے تو اس نے کہا اے امیر المومنین! آپ ہیں ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں تجھے قسم دیتا ہوں ۔ زیاد نے کہا: جب آپ نے مجھے قسم دے دی تو اب بتانے میں کوئی حرج نہیں ، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے بڑی بلیغ ہیں ۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس نے جو دروازہ کھولا اور وہ اسے بند کرنا چاہے تو میں اسے بند رکھوں گا اور اس نے جو دروازہ بند کیا اور وہ کھولنا چاہے تو میں بھی اسے کھول دوں گا۔[4] انھوں نے دعوت الی اللہ کے لیے مواعظ حسنہ کا اسلوب احادیث سے سمجھا کیونکہ احادیث نبویہ میں تخویف، وعید، روزِ قیامت کی ہولناکیوں کے ذریعے نصیحت اور دنیا میں زہد اور اس کے سامان کی
Flag Counter