Maktaba Wahhabi

396 - 677
چنانچہ تم کہتے ہو کہ جس چیز کا علم عباس رضی اللہ عنہ کو نہ تھا حالانکہ وہ اس وقت گھر میں موجود تھے اور جس کے متعلق وحی بھی نازل نہیں ہوئی اور تمھیں اس کی پوری پوری خبر ہو گئی۔ تو یہ بہت بڑا اور گھناؤنا بہتان ہے جو انسان کو عقل و ایمان سے ایک ساتھ بیگانہ کرتا ہے۔ ۱۲۔روایت کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طریقہ سے دوا پلانے سے روکا تو آپ کی بیویاں اسے شرعی نہی کے طور پر نہ سمجھیں بلکہ ان کے مطابق مریض کو جیسے دوا سے نفرت ہوتی ہے ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوا سے نفرت کی وجہ سے یہ کہہ رہے تھے۔ ان کی اس سمجھ کا کوئی منکر نہیں ، باوجودیکہ ان کے پاس اس طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوا پلانے کا کوئی عذر نہیں ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع بھی کیا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے۔ تاہم ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی تشخیص میں غلطی ہوئی اس لیے انھوں نے آپ کو ایسی دوا پلا دی جو آپ کے مرض کے موافق نہ تھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ علاج سے انکار کیا کیونکہ وہ آپ کے مرض کے موافق نہیں تھا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے یہ سمجھا کہ آپ کو درد قولنج ہے۔ اس لیے انھوں نے آپ کو وہی دوا پلائی جو اس مرض کے موافق تھی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا نہ تھے، جیسا کہ خبر کے سیاق سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے۔‘‘[1] انسان کو جس چیز پر تعجب ہوتا ہے وہ رافضیوں کی یہ حرکت ہے کہ انھوں نے فتح خیبر کے موقع پر یہودیوں کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کھلانے والے واقعہ کو بالکل نہیں چھیڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے مرض الموت میں اس زہر کے جو اثرات اور درد انگیز اذیتیں ظاہر ہوئیں حتیٰ کہ آپ نے ہم سب کی ماں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا: اے عائشہ! میں نے جو کھانا خیبر میں کھایا تھا اس کا درد ابھی تک محسوس کر رہا ہوں ۔ پس ان لمحات میں اس زہر کے اثرات سے میں اپنے حلق کی رگوں کو کٹتا ہوا محسوس کر رہا ہوں ۔[2] پھر رافضی یہ افتراء ام المومنین پر باندھتے ہیں گویا انھوں نے دو اقسام کی شرارتوں کو اپنی جھولی میں ڈال لیا۔ اللہ کے اعلانیہ دشمنوں سے دوستی کا اظہار اور ان کے جرم سے انھیں بے گناہ قرار دینا اور اللہ تعالیٰ
Flag Counter