Maktaba Wahhabi

399 - 677
روافض کہتے ہیں : ’’عبدالرزاق نے معمر[1]سے روایت کی ہے کہ زہری کے پاس بواسطہ عروہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی دو حدیثیں موجود تھیں جو علی علیہ السلام کے بارے میں تھیں ۔ تو ایک دن میں نے ان دونوں کے متعلق ان سے استفسار کیا، تو وہ کہنے لگا، تجھے ان دونوں راویوں اور ان دونوں کی حدیثوں سے کیا غرض ہے؟ اللہ تعالیٰ خود ان دونوں اور ان کی روایتوں کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ البتہ میرے نزدیک وہ دونوں بنو ہاشم کے متعلق مرویات میں ’’متہم فیہ‘‘ ہیں ۔ ہمارے معاصرین میں سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذمت کرتے ہوئے ایک ملحد و زندیق کہتا ہے: ’’کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس کی ہزاروں جھوٹی روایات کا تذکرہ کروں کہ جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت کو بند لگ گیا اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت پر طعن و تشنیع کا دروازہ کھل گیا۔‘‘[2] اس بہتان کا جواب متعدد طریقوں سے دیا جائے گا: ۱۔یہ اور اس جیسی تمام روایات من گھڑت اور باطل افسانے ہیں جن کے ذریعے سے ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان تراشی کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ روایت کلی طور پر مردود ہے ، اسے حجت نہیں بنایا جا سکتا، اہل سنت کے نزدیک ہی نہیں بلکہ شیعہ بھی اس روایت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے تو وہ رافضیوں کی اسناد اور ان کی روایات پر اعتماد نہیں کرتے، کیونکہ رافضیوں کی اکثر اسانید خود ساختہ، من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور اگر وہ حسن اتفاق سے وضع جیسے گھناؤنے عیب سے محفوظ بھی ہوں تو ان کے راوی عموماً کذاب، متروک اور مجہول ہوتے ہیں اہل سنت کا یہ ماحصل شیعوں کی روایات کی اسناد کے متعلق اور روایات شیعہ کے متون عموماً مسلمانوں کے اجماعی تواتر کے مخالف و معارض ہوتے ہیں ، سوائے جس کی مخالفت بے وزن و غیر معتبر ہو۔ جیسے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے روایت کی توثیق کی جائے، کیونکہ وہ صرف صحابیہ ہی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ اور تمام اہل ایمان کی ماں بھی ہیں ۔
Flag Counter