Maktaba Wahhabi

412 - 677
(یعنی اسلامی اشعار، اور جنگی فتوحات و شہداء کے کارنامے بیان کرنا) جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلمانوں کے ساتھ نرمی، رحمت اور شفقت کی یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا: ’’عیدوں اور خوشی کے مواقع پر خوشی کا اظہار کرنا دین کا شعار ہے۔‘‘[1] بلکہ یہ فتنہ پرور فسادی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی (نعوذباللہ) جھوٹ بولتی تھیں اور وہ دلیل کے طور پر ایک حدیث بیان کرتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو کلب کی ایک عورت سے منگنی کا ارادہ کیا اور عائشہ کو اسے دیکھنے کے لیے بھیجا، وہ گئیں پھر واپس آ گئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے کیا دیکھا؟ انھوں نے کہا: مجھے آپ کا اس کے ساتھ شادی کرنے کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یوں مخاطب کیا: تجھے میرا اس کے ساتھ شادی کا مقصد بخوبی سمجھ آ گیا ہے۔ تم نے جونہی اس کے رخسار پر تل[2] دیکھا تو تمھارے بدن کے سارے بال کھڑے ہو گئے۔ تب عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ سے راز کی کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔[3] اس کی سند میں جابر جعفی شیعی ہے جو ضعیف ہے اور دوسرے راوی عبدالرحمن بن سابط نے اسے مرسل روایت کیا۔فضیلۃ الشیخ محدث دوراں علامہ ناصر الدین البانی[4] رحمہ اللہ نے لکھا: یہ روایت ابن سعد[5] نے ’’الطبقات‘‘ میں نقل کی .... جو کہ موضوع یعنی من گھڑت اور جھوٹی روایت ہے۔
Flag Counter