Maktaba Wahhabi

417 - 677
پہلا بکر بن صالح ایک ہی شخص ہو۔ جیسا کہ فن رجال کے کسی ماہر نے یہ بھی کہا ہے۔ لہٰذا غور کرنا چاہیے۔[1] ب:جب اس روایت کا مقابلہ دوسری روایات سے کیا جائے تو اس کے بودے پن کا بخوبی علم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ تمام روایات جو شیعہ اس مفہوم پر دلالت کرنے کے لیے روایت کرتے ہیں ان سب میں اختلاف شدید ہونے کے باوجود ان کے موضوع اور باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ صرف اہل تشیع کی ہی روایات ہیں کسی اور نے ان کی طرف دھیان نہیں دیا۔ نیز وہ نقل میں تو متعدد ہیں لیکن ان میں اختلاف اتنا زیادہ ہے جو ان کے جھوٹی اور سرے سے باطل ہونے کی چغلی کھا رہا ہے۔[2] ج:ان روایات کے متون اور مفاہیم پر جب نقد و جرح کی جاتی ہے تو ان کا بطلان کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ روافض کی قدیم زمانے سے یہ عادت چلی آتی ہے کہ جب وہ کوئی روایت وضع کرتے ہیں تو (کاہنوں کی طرح)اس کے ساتھ ایک آدھ لفظ سچا اور صحیح بھی لگا دیتے ہیں تاکہ سادہ لوح لوگوں کو اس پوری من گھڑت روایت کے سچ ہونے کا وہم ہو جائے اور یہ کہ جو کچھ انھوں نے وضع کیا ہے اس کے سچا ہونے کا خیال بن جائے، نیز یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف طعن و تشنیع کی نسبت کرنے لگیں جس سے وہ بغض رکھتے ہوں ، تو ابتدا میں قصداً وہ ایسی روایت لاتے ہیں جس میں اس شخص کی نیکی اور صلاح کا ثبوت ہو لیکن روافض ایسی روایات میں سے بھی اس شخص کے لیے طعن و تشنیع اور سب و شتم کے دلائل نکال لیتے ہیں اور اسے برے القاب سے ملقب کر کے ہی چھوڑتے ہیں ۔ لعنۃ اللّٰہ علیہم۔ یہ معمول سرکش جنات و شیاطین کا ہے جو آسمان کی خبریں چوری کرتے ہیں اور ایک خبر کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر اپنے انسانی اور شیطانی دوستوں پر القاء کر دیتے ہیں ۔ پھر ان سے حسن ظن رکھنے والا سادہ لوح کہہ اٹھتا ہے: وہ اس ایک بات میں تو سچے ہیں ۔ مثلاً سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی موت کا واقعہ اور ان کے چھوٹے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے انھیں ان کے کمرے میں دفنانے کی اجازت طلب کرنے کی روایت اہل سنت کی کتابوں میں ثابت و
Flag Counter