Maktaba Wahhabi

445 - 677
۱۔یہ حدیث صحیح نہیں اور دشمنانِ دین عموماً قرآن میں شکوک و شبہات ایسی ہی روایات کے بل بوتے پر پیدا کرتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا راوی ابن اسحق[1] صدوق ہے اور جس راوی کی یہ صفت ہو تو اس کی حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔ بشرطیکہ وہ دیگر عیوب سے محفوظ ہو۔ اسی طرح یہ راوی تدلیس کے ساتھ مشہور ہے۔ اکثر اوقات مجروح راویوں کی وجہ سے تدلیس کرتا ہے اور جس کا اپنا حال یہ ہو اس کی روایت قبول کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے سے اوپر والے راوی سے سماعت کی تصریح کرے اور جب وہ ’’عن‘‘ کے ساتھ روایت کرے تو اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی۔ ابن اسحق نے یہ روایت دو اسناد کے ساتھ ذکر کی ہے اور دونوں اسناد کو ایک دوسری کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے اور متن دونوں کا ایک ہی ہے جس کی وجہ سے اس پر جرح کی گئی۔ بعض اوقات ایک متن اس کے پاس ایک سند کے ساتھ ہوتا ہے تو دوسری سند کو بھی اسی متن کے ساتھ ملا دیتا ہے، کیونکہ وہ اسے بطور مفہوم و معنی ایک جیسا ہی سمجھتا ہے، حالانکہ وہ دونوں متن ایک جیسے نہیں ہوتے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ’’ابن اسحق جب کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہو تو کیا اس کی حدیث لے لی جائے؟ انھوں نے کہا: ’’نہیں ۔ اللہ کی قسم! اس نے دیکھا ہے۔ وہ بہت سے لوگوں کو ایک حدیث سناتا ہے لیکن واضح نہیں کرتا کہ یہ کس کس کا کلام ہے۔ ‘‘[2] گویا جب کبار محدثین جیسا کہ امام احمد اور امام نسائی نے نصاً بیان کر دیاکہ ابن اسحق احکام میں حجت نہیں تو پھر قرآن میں شکوک و شبہات کے لیے استعمال ہونے والی روایات میں کیسے معتبر ہو سکتا ہے۔ بہرحال کچھ علماء و فضلاء نے اس حدیث کے معانی کی وضاحت کر دی ہے۔ انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اسلامی قانون متعدد مراحل سے گزرا اور آپ کی وفات تک اسلامی قوانین میں (وحی کے ذریعے) ردّ و بدل ہوتا رہا اور جب آپ رفیق اعلیٰ کے پاس چلے گئے تو آیات و احکام کا منسوخ ہونا ختم ہو گیا۔ ۲۔اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تب بھی اس میں کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ مذکورہ آیات
Flag Counter