Maktaba Wahhabi

460 - 677
ندامت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی دلیل ہے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اس کے حق پر ہونے کا اعتراف کہا جائے گا، بصورت دیگر کچھ بھی نہ ہو گا۔‘‘[1] ۲۔جو کچھ اس جیسی روایات کا مضمون ہے اس طرح کے خیالات کا ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے تیسرے خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اظہار کو عقل سلیم کے ساتھ تسلیم کرنا ناممکن ہے اور اس کے متعدد قرائن ہیں : الف: جن ظالموں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، ان کے بارے میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف انتہائی سخت تھا اور وہ ان کے قاتلوں سے قصاص لینے کا مطالبہ کرتی رہیں ۔ جیسا کہ ہمارے لیے تاریخ کی کتابوں میں اس طرح کے مضامین محفوظ ہیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’فتنہ پردازوں نے عثمان کو شہید کرنے سے پہلے توبہ کروا لی حتیٰ کہ وہ دھلے[2]ہوئے کپڑے کی طرح صاف ہو گئے پھر انھوں نے اسے قتل کر دیا۔‘‘[3] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’اگر تم نے انھیں ایک کوڑا مارا تو میں تم سے ضرور ناراض ہوں گی لیکن عثمان رضی اللہ عنہ تم پر تلوار بھی چلاتے تو مجھے ان پر غصہ نہ آتا۔ تم نے اس سے توبہ کروا لی اور جب وہ پاکیزہ دل کی طرح ہو گیا تو تم نے اسے قتل کر دیا۔‘‘[4] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’اے لوگو! بے شک شہروں میں رہنے والو! چشموں پر رہنے والو اور اہل مدینہ کے غلاموں کے اس آدمی پر اژدہام کی وجہ سے فتنہ برپا ہوا۔ ماضی میں جو مظلومیت کی حالت میں قتل ہوا اور انھوں نے اس سے انتقام لینے کے لیے نو عمر لوگوں کو استعمال کیا: بلاشبہ ان جیسے (نوعمر لڑکوں نے طائف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھراؤ کیا تھا۔ [ظفر]) نو عمر لڑکے پہلے بھی استعمال ہو چکے ہیں اور چراگاہوں پر ان کا قبضہ تھا۔ اس نے ان کا پیچھا کیا اور ان سے چراگاہیں واپس کر لیں ۔ چنانچہ جب ان کے پاس کوئی دلیل اور کوئی عذر نہ رہا تو وہ کھلم کھلا عداوت اور ظلم پر اتر آئے۔ انھوں نے محترم شہر اور محترم مہینے میں محترم خون بہا دیا اور محترم مال انھوں نے لوٹ لیا۔ اللہ کی قسم! ان جیسوں سے اگر زمین بھری ہو تو بھی سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی ان سے بہتر ہے اور اللہ کی قسم! جس الزام میں ان لوگوں نے اس پر ظلم
Flag Counter