Maktaba Wahhabi

468 - 677
کیسا معلوم ہوتا ہے؟ میں نے کہا: جسے بکرے کا گوشت کھانے کو ملے اس کا گوشت اچھا ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کے ساتھ اس کی مشابہت نہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : مجھے دیگر عورتوں کی طرح غیرت نے آ لیا۔ بالآخر میں نے کہہ دیا: میں کوئی مشابہت نہیں دیکھتی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک لوگوں کی باتیں پہنچنے لگیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: تو یہ تلوار لے جا اور ماریہ کا چچا زاد تجھے جہاں ملے اس کی گردن کاٹ دے۔ وہ چل پڑے، انھوں نے دیکھا کہ مطلوبہ شخص کھجور کے ایک باغ میں درخت سے تازہ کھجوریں توڑ رہا ہے۔ اس نے جب علی رضی اللہ عنہ کو تلوار کے ساتھ آتا ہوا دیکھا تو اس پر کپکپی طاری ہو گئی اور اسی پریشانی میں اس کا تہہ بند گر پڑا۔ علی رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا کہ اللہ عزوجل نے اس کے لیے وہ چیز تو پیدا ہی نہیں کی جو مردوں کی خصوصی علامت ہوتی ہے۔ وہاں صرف ایک دھبہ تھا۔[1] ہم دیکھتے ہیں کہ اس روایت سے عبدالحسین نے اپنی کتاب ’’مراجعات‘‘ میں قبیح ترین استدلال کیا ہے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخلاق اور دین پر تہمت لگانے میں اس روایت پر تکیہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’اور تیرے لیے اس بات کی نزاکت کا احساس کرنے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہے کہ جب کذاب اور مفتری لوگوں نے سیّدہ ماریہ کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر اسے اور اس کے بیٹے علیہ السلام کو بہتان اور عداوت کا نشانہ بنایا اور ان کے منہ میں جو کچھ آیا وہ کہہ دیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین کے ہاتھوں دونوں کی براء ت کا اعلان کروا دیا جو سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اور سب کا لحاظ کرتے ہوئے کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا قول کتنا سچا ہے: ﴿ وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا﴾ (الاحزاب: ۲۵) ’’اور اللہ نے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، ان کے غصے سمیت لوٹا دیا، انھوں نے کوئی بھلائی حاصل نہ کی۔‘‘[2] پھر اپنی مذکورہ بات کی تشریح کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے: ’’جو اس مصیبت کے بارے میں تفصیل جاننا چاہے وہ مستدرک حاکم کی ج ۴، ص: ۳۹ میں سیّدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کے احوال کے بارے میں روایات کا مطالعہ کرے یا مستدرک للحاکم کی جو
Flag Counter