Maktaba Wahhabi

504 - 677
سے پیش آؤ اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کریں تم بھی وہی پسند کرو اور جس سے وہ نفرت کریں تم بھی اس سے نفرت کرو۔‘‘[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’﴿ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ﴾ (التحریم: ۴) یہاں عائشہ اور حفصہ رضی ا للہ عنہما کو مخاطب کیا گیا ہے یعنی تم دونوں کو اللہ کے سامنے توبہ کرنی چاہیے کیونکہ تم دونوں نے ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہے جس سے توبہ واجب ہو جاتی ہے اور ﴿ صَغَتْ ﴾ کا معنی حق سے پھرنا اور تبدیلی کرنا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ان دونوں نے اس چیز کو پسند کر لیا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفرت کرتے تھے اور وہ افشائے راز ہے اور یہ معنی بھی کیا گیا: ’’تمھیں چاہیے کہ اللہ کے سامنے توبہ کر لو کیونکہ تم دونوں کے دل توبہ کی طرف مائل ہیں ۔‘‘[2] علامہ محمد امین شنقیطی[3]رحمہ اللہ نے لکھا: صغت کا معنی ’’مالت و رضیت و احبت‘‘ یعنی ان کے دل مائل ہو گئے، خوش ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ناپسند تھا انھوں نے وہ پسند کر لیا۔[4] یہ خطا ان سے محبت میں شدت کی وجہ سے سرزد ہوئی نہ کہ ان کی نیت خراب تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ابراہیم کے پاس نہ جانے کا عزم ظاہر کیا تو ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا اتنی خوش ہوئیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راز رکھنے کے حکم کو فراموش کر دیا۔ تاہم وہ معصوم نہیں ہیں اور نہ ہی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا معصوم ہیں اور حسب مقولہ ’’بڑوں کی غلطیاں ان کی صلاحیتوں میں کمی نہیں لاتیں اور نہ ان کے فضائل کم ہوتے ہیں ۔‘‘ البتہ توبہ کے ذریعے سے دلوں کو نئی زندگی ملتی ہے اور شارع کی مخالفت میں پڑنے سے پہلے وہ نہایت نرم مزاج اور بلند مقام ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ ﴾ (الاعراف: ۲۰۱)
Flag Counter