Maktaba Wahhabi

517 - 677
عبیداللہ کہتے ہیں : ’’میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ بتلائے تو عبداللہ بن عباس رضی ا للہ عنہما نے مجھ سے سوال کیا: تمھیں معلوم ہے کہ وہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہیں لیا؟ بقول راوی میں نے کہا: پتا نہیں ۔ ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے فرمایا: وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘ مرتضیٰ حسینی نے کہا: (اس کا بیان کہ عائشہ رضی اللہ عنہا علی کے ساتھ بغض و حسد رکھتی تھیں اور وہ علی علیہ السلام کے قتل سے خوش ہوئیں ) نیز عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی سابقہ حدیث میں ہے اور نعمان بن بشیر سے مروی حدیث میں بھی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی بلند آواز سنی وہ کہہ رہی تھیں ، اللہ کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مجھ سے اور میرے باپ سے علی زیادہ محبوب ہے۔ دو بار یا تین بار یہ کہا۔ ابوبکر اجازت لے کر اندر آئے اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے فلاں عورت کی بیٹی! کیا میں تیری بلند آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں سن رہا؟[1] حدیث میں ہے: عائشہ نے جب علی علیہ السلام کے قتل کی خبر سنی تو خوشی سے یہ شعر پڑھا: فَاَلْقَتْ عَصَاہَا وَ اسْتَقَرَّتْ بِہَا النَّوٰی کَمَا قَرَّ عَیْنًا بِالْاَیَابِ الْمُسَافِرِ ’’موت نے اپنی لاٹھی رکھ دی اور دور کی مسافت سے قرار پکڑا جس طرح مسافر کے لوٹنے سے آنکھ قرار پکڑتی ہے۔‘‘ پھر یہ رافضی کہتا ہے کہ اس شعر کی مثال اس وقت دی جاتی ہے جب شدت سفر کے بعد راحت میسر آتی ہے اور غم و اندوہ کے بعد کشادگی ملتی ہے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ شعر کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس ہی نہیں نکالی بلکہ وہ علی علیہ السلام کی شہادت سے صراحتاً خوش ہوئی۔[2]
Flag Counter