Maktaba Wahhabi

519 - 677
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کندھا دیتے۔[1] نیز بتقاضا ہائے بشریت ان دونوں نفوس قدسیہ رضی ا للہ عنہما کے درمیان کچھ نفسانی عوارض واقع ہو بھی گئے ہوں تو ان پر انھیں نہ ملامت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی قول و فعل حرام کی حد عبور کرتا ہے۔ خصوصاً جب عائشہ رضی اللہ عنہا کوئی ایسی بات کہہ دیتی ہوں جس سے نفس انسانی کو ایذاء پہنچے کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عائشہ رضی اللہ عنہا سے علیحدگی کا مشورہ دیا تھا۔[2] انسان اس شخص کو دیکھنا پسند نہیں کرتا جو اسے کسی ناپسندیدہ بات کی یاد دلائے۔ یا اسے دیکھ کر اسے کوئی ایسا واقعہ یاد آ جائے جو گزر تو چکا ہو لیکن اس کا اثر ابھی انسان پر باقی ہو اور گزشتہ جملوں کی وضاحت کرنے والی قریب ترین روایت وہ ہے جو امام بخاری لائے ہیں اور جو صحابی جلیل وحشی[3] رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جنھوں نے اسلام سے پہلے سیّدنا حمزہ[4] رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ تو اسلام لانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تو نے حمزہ کو قتل کیا؟ (وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے کہا: وہ ساری خبر آپ سن چکے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لو؟ [5] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اس حدیث میں یہ بات ہے کہ آدمی اس شخص کو دیکھنا ناپسند کرتا ہے۔ جس نے اس کے کسی قریبی یا دوست کو تکلیف پہنچائی ہو، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان دونوں کے درمیان ایسی دوری ہو جس سے منع کیا گیا ہے۔‘‘[6]
Flag Counter