Maktaba Wahhabi

572 - 677
کرے، پھر اس کا عضو ڈھیلا ہو جائے تو کیا ان دونوں پر غسل واجب ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا وہاں بیٹھی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یہ ایسا کام کرتے ہیں ، پھر ہم غسل کر لیتے ہیں ۔[1] تو کیا یہ رافضی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قلت حیا اور سوء ادب کا طعنہ دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عیب سے پاک و منزہ ہیں ۔ یا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تبلیغ پر اعتراض کرو گے یا یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کے راز افشا کیے۔ سوء ظن لامحدود ہے۔ نووی رحمہ اللہ نے کہا: ’’بیوی کی موجود گی میں اس طرح کی بات کرنے کا جواز ملتا ہے۔ جب اس میں کوئی مصلحت مرتب ہوتی ہو اور کسی کو اذیت پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اسلوب سے اس لیے جواب دیا کہ یہ سائل کے دل پر زیادہ اثر انداز ہو گی نیز اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل وجوب کے لیے ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو سائل کو جواب نہ ملا ہوتا۔[2] یہی بات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہی جائے گی کہ ان کا ایسی احادیث کی روایت کا سبب مسلمانوں کے طہارت کے معاملات کی تعلیم تھا۔ اگرچہ وہ تفصیل طلب ہوں ، نیز اس ضروری علم کی تحصیل میں حیا مانع نہیں ، اسی لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں : انصاری عورتیں بہت اچھی ہیں ، انھیں دین کو سمجھنے میں حیا مانع نہیں ۔[3] اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد وحید اس خبر کی تاکید کرنا تھا جس میں لوگوں کا اختلاف تھا اور ایسے واضح طریقے سے حدیث پیش کی کہ اس میں تاویل کی گنجائش نہ رہی۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اَلْمَائُ مِنَ الْمَائِ)) ’’پانی پانی سے ہے۔ یا غسل احتلام سے ہے۔‘‘[4] اب اگر کسی دماغ میں شیطان نے بسیرا کیا ہوا ہو تو وہ سورۂ یوسف سے بھی جنسی تلذذ کشید کرے گا۔ وہ لوگ کہ جن کے ہاں نکاحِ متعہ جائز ہی نہیں ، افضلیت کے درجات کا حامل ہے، وہ کس منہ سے اسلام کی پاکیزہ جنسی تعلیمات پر حرف گیری کر سکتے ہیں ؟ ایسا وہی کر سکتا ہے کہ جس کے نزدیک شرم و حیا ایک بے معنی چیز ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ بنانے کی ترغیب اور حدیث پر عمل نہ کرنے کے اندیشے کا سدباب یعنی صرف ختنے ملنے سے غسل چھوڑنے کا اندیشہ اور غسل کے لیے صرف انزال کا اعتبار کرنا اور نماز پر اس کا اثر
Flag Counter