Maktaba Wahhabi

578 - 677
باہمی تنازعات کے متعلق جو کچھ ہم تک روایات پہنچی ہیں ان میں سے بہت کچھ جھوٹ ہے، وہ قابل توجہ نہیں اور جو روایات صحیح ہیں ہم ان کی احسن تاویل کریں گے اور ان کے لیے عمدہ ترین مخارج تلاش کریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کی ثنا بیان کر دی ہے۔ جو کچھ ان کی نسبت ہم تک پہنچا ہے اس میں تاویل کا احتمال ہے اور قاعدہ کے مطابق مشکوک چیز معلوم کو باطل نہیں کرتی۔[1] یہ وہی بات ہے جو حبر امت سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے کہی تھی کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو گالی مت دو، کیونکہ اللہ عزوجل نے ان کے لیے استغفار کا حکم دیا ہے۔حالانکہ اسے معلوم تھا کہ یہ مستقبل میں آپس میں قتال کریں گے۔[2] چند اُصولوں کا ذکر جو اہل سنت و الجماعت میں متفق علیہ ہیں ۔ صرف اہل بدعت و اہواء ہی ان کا انکار کرتے ہیں : ۱۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کے ساتھ حسن ظن رکھنا خصوصاً ان کے بارے میں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک ان سے راضی رہے ان میں بلاشک و شبہ علی، عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہن بھی ہیں ۔ ۲۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو معصوم نہ سمجھنا بلکہ ان سے نہ صرف صغیرہ گناہ سرزد ہو سکتے ہیں بلکہ کبیرہ گناہ بھی سرزد ہونے پر کوئی تعجب نہ کرنا اور اگر وہ اجتہاد کرنے میں غلطی کریں تو انھیں ایک اجر ضرور ملنے کی امید رکھنا۔ ۳۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر سب و شتم کرنا حرام ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے اورجو ان کے عادل ہونے میں عیب جوئی کرتا ہے وہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل میں عیب جوئی کرتا ہے کہ جس نے ان کو جنت کی بشارت دی اور وہ دین میں عیب جوئی کرتا ہے جو ان صحابہ کے ہاتھوں اور زبانوں سے ہم تک پہنچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا، جب انھوں نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ نازیبا کلمات کہہ دئیے جو پہلے پہلے
Flag Counter