Maktaba Wahhabi

601 - 677
تو جب ازواج مطہرات کے اپنی مصلحت کے لیے سفر جائز تھے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوچا کہ یہ سفر تو تمام مسلمانوں کی مصلحت کے لیے ہے، چنانچہ انھوں نے اس تاویل کے مطابق اجتہاد کیا۔[1] وجہ نمبر ۳:.... یہ کہ وہ اجتہاد کے سہارے گھر سے باہر گئیں ۔ خصوصاً جب ان کے ساتھ بکثرت عادل صحابہ ہوں جو بہرحال مجتہد تھے کسی کو جاہل نہیں کہا جا سکتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: ’’خطا کرنے والے مجتہد کی خطا معاف کر دی جاتی ہے تو جب ان لوگوں کی اس اجتہادی غلطی کو معاف کر دیا گیا جس کی وجہ سے مومنین باہم قتال کرتے رہے۔ یعنی علی رضی اللہ عنہ اور ان کے مدمقابل صحابہ وغیرہم تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اس اجتہادی غلطی پر مغفرت کا ہونا زیادہ قریب ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں ۔‘‘[2] وجہ نمبر ۴:.... رافضیوں کی اپنی کتابوں میں سند متواتر سے ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار کرایا اور انھیں مدینہ کی گلیوں اور انصاریوں کے گھروں کے سامنے گھمایا تاکہ ان کے جو حقوق غصب کیے گئے ہیں (شیعوں کے کہنے کے مطابق) اس پر اس کی کچھ معاونت ہو جائے۔[3] روافض اسے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عیب شمار نہیں کرتے کہ وہ اپنے گھر سے نکلیں ۔ یہ رافضیوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی تنقیص کی دلیل ہے کیونکہ وہ اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہیں ۔ وجہ نمبر ۵:.... یہ کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بلاشبہ اپنے گھر سے نکلنے پر سخت نادم ہوئیں اور وہ جب جنگ جمل کا تذکرہ کرتیں تو اتنی شدت سے روتیں کہ اپنی اوڑھنی آنسوؤں سے تر کر لیتیں ۔ یہ ندامت و توبہ کی دلیل ہے اور جو گناہ سے توبہ کر لے وہ گناہ نہ کرنے والے کی طرح ہو جاتا ہے اور توبہ کرنے والے کو اس کے گناہ کے ساتھ عار دلانا جائز نہیں ۔ جو شخص اپنے گناہ سے توبہ کر لے اگر اسے اس کے گناہ کی وجہ سے عار دلایا گیا تو یہ اس پر بہت بڑا ظلم ہو گا۔ ذرا سوچیں ! اگر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے گھر سے نکلنے کا گناہ کر لیا جس سے توبہ لازم آتی ہے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے شدید ندامت کا اظہار تو کر دیا اور یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دین، ورع اور کمال تقویٰ کی بہترین مثال ہے اور جو توبہ کرنے والے کا گناہ توبہ کے بغیر بیان کرے گا تو وہ اس پر یقیناً بہتان لگائے گا، اور اس
Flag Counter