Maktaba Wahhabi

609 - 677
ابن ہبیرہ[1] اس حدیث کے ضمن میں کہتے ہیں : عمار رضی اللہ عنہ صدق مقال تھے۔ وہ تنازعات میں بھی اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ ان کے حمایتی کا نقصان ہو گا۔ اگرچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ ہو رہی تھی اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکمل فضائل کی گواہی دی۔[2] گویا یہ فہم علماء و حفاظ حدیث کا ہے کہ یہ روایت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدح کرتی ہے ان کی مذمت نہیں کرتی۔ وجہ نمبر ۲:.... یہ کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بذات خود جنگ جمل میں عمار رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی۔ جب جنگ ختم ہوئی تو عمار رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اے ام المومنین! جو عہد آپ کو دیا گیا آپ کا یہ کردار اس سے کتنا بعید ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آواز پہچان کر فرمایا: کیا ابو الیقظان ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں ! عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ آپ ہمیشہ حق بات کہتے ہیں ۔ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: اس اللہ کی تعریف جس نے آپ کی زبان سے میرے حق میں فیصلہ دلوایا۔[3] یہ بہت ہی وزنی گواہی ہے جو سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ نے محفل میں دی ہے انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں ان کے سچ پر ہونے کی گواہی دی اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فوراً گواہی دی کہ وہ حق کا کھلم کھلا اعلان کرنے والے ہیں ۔ رضی ا للہ عنہما وجہ نمبر ۳:.... کچھ رافضی عمار رضی اللہ عنہ کے اس جملے کو اپنے لیے دلیل بناتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھیں آزمائش میں ڈالا ہے کہ تم علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتے ہو یا عائشہ رضی اللہ عنہا کی۔ جواب:.... یہ جملہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی موجودگی میں ادا ہوا اور یہ بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کی دلیل ہے ، ان کے نزدیک وہ شان عظیم کی مالکہ تھیں اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ ابتلاء تو امتحان ہوتا ہے گویا اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کریں یا
Flag Counter