Maktaba Wahhabi

611 - 677
غلو پر ابھارنے کے لیے بہت موثر ہوتا ہے۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل شروع ہونے سے پہلے اہل عراق سے خطاب کیا تاکہ وہ انھیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی قیادت میں بغاوت میں شامل ہونے سے روکیں ۔ تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! بے شک وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارا امتحان لیا ہے تاکہ وہ جان لے کہ تم علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ رضی اللہ عنہا کی؟‘‘ صحیح بخاری میں بواسطہ ابو مریم اسدی، عمار سے روایت ہے اور اسی طرح اس نے بواسطہ ابو وائل عمار سے روایت کی ہے۔[1] بقول معلمی رحمہ اللہ عمار کے اس خطبے نے زیادہ لوگوں کو متاثر نہ کیا بلکہ کچھ لوگوں نے یہ کہتے ہوئے اسے جواب دیا۔ اے عمار! ہم اس کے ساتھ ہیں جن کے جنتی ہونے کی تو نے گواہی دی ہے۔[2] وجہ نمبر ۴:.... یہ کہاجائے چلو مان لیتے ہیں کہ عمار رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بدکلامی کی (اللہ انھیں اپنی پناہ میں رکھے) تو فتنہ کے وقت ایسی طعن و تشنیع کرنا اس کے سینے کے بغض کی علامت ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے رکھتا ہو، وہ ہمیشہ ان کے عیوب کی گھات میں رہتا ہو اور ذرا ذرا سی باتوں کو اچکنے کا حریص ہوتا ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کا وتیرہ نہیں ہو سکتا جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یوں فرمائی ہے: ﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ (الحشر: ۱۰) ’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب !یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ ٹھیک ہے کہ صحابہ کے درمیان بھی ایسے مناظر پیش آ جاتے تھے جیسے کسی بھی انسان کو اس کے بھائیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ تو اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو عفو درگزر کا درس دیتے اور ان پر اس
Flag Counter