Maktaba Wahhabi

645 - 677
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے لکھا: ’’یہ بات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ناز و نخرے کے انداز میں کہی، جس انداز میں ہر محبوب اپنے محب سے کرتا ہے۔‘‘[1] جب ایک ماہ تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے کے متعلق وحی منقطع رہی تو اس صورت حال میں ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن القیم الجوزیہ وحی نہ آنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’تاکہ صدیقہ اور ان کے ماں باپ رضی اللہ عنہم سے مطلوبہ عبودیت کی تکمیل ہو جائے اور ان پر ہونے والا اللہ تعالیٰ کا انعام مکمل ہو جائے۔ نیز ان سے اور ان کے ماں باپ کے فاقہ کی شدت سے ان سب کی اللہ تعالیٰ کی طرف حاجت مندی اور رغبت میں اضافہ بھی مقصود شارع تھا اور اس لیے بھی تاکہ ان سب کا اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن اور اس کے لیے درماندگی اور اسی سے امید پختہ ہو جائے ۔ اس کی بجائے تمام مخلوق سے وہ اپنی امیدیں منقطع کر لیں اور مخلوق کے کسی فرد سے بھی نصرت اور کشادگی کے حصول کی ان کی تمنا ختم ہو جائے اسی لیے ان کے ماں باپ نے اس مقام پر ان کا پورا پورا حق ادا کرتے ہوئے کہا: بلکہ تم خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جاؤ اور اپنا مدعا بیان کرو۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی براء ت نازل کر دی تھی اس کے باوجود انھوں نے پورے وثوق اور خود اعتمادی سے کہا: اللہ کی قسم! میں صرف اس اللہ رب العالمین کی حمد کروں گی جس نے میری براء ت نازل کی۔‘‘[2] دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس ذات عالیہ کی اشک شوئی کے لیے آگے سے خاموش رہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے دلی صدمے اور شدت المیہ کا بھی احساس و لحاظ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور فرحت و شادمانی سے چمک رہا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا اللہ رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کا اعلان کیا تھا۔
Flag Counter