Maktaba Wahhabi

13 - 180
کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس میں آیات و سور و کلمات و اَلفاظ و حروف کو ایک دوسرے کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ ٭ علماء کی دوسری جماعت کا کہنا ہے، جن میں امام فراء بھی ہیں۔ لفظ قرآن قرائن سے مشتق ہے اور قرائن قرینہ کی جمع ہے جس کا معنی دلیل و برہان ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ بات قرائن سے (دلائل سے ) ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی آیات دلائل و براہین اور صدق و حقانیت میں ایک دوسری کے مشابہ ہیں۔ ٭ علماء کی تیسری جماعت کا کہنا ہے، جن میں اِمام اللحیانی ہیں، کہ لفظ قرآن یہ قَرَأَ بمعنی تَلاسے مصدر ہے اور غُفْرَان کے وزن پر ہے جس کا معنی پڑھنا یا تلاوت کرنا اور ملانا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے {إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْآنَہٗ}یعنی ’’اس (قرآن مجید ) کا جمع کرنا اور( آپ کی زبان سے ) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے ‘‘…چنانچہ قرآن کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کہ اس کو پڑھا جاتا ہے اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور اس کی پیروی کی جاتی ہے اور اس کی محبت سے انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ مل جاتا ہے۔ ٭ علماء کی چوتھی جماعت کاکہنا ہے، جن میں امام زجاج ہیں، کہ لفظ قرآن القرئسے مشتق ہے اور فعلان کے وزن پر وصف ہے جس کا معنی اَلْجَمْعُ وَٖالضَّمُّ وَالْاِجْتِمَاعُ ہے (جمع کرنا اور ملانا) چنانچہ قَرْئُ الْمَائِ فِی الْحَوْضِ اس وقت بولاجاتا ہے جب پانی حوض میں جمع ہو جائے اور قُرْئُ الْمَرْأَۃِ کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے کہ جب اجْتَمَعَ الدَّمُ فِیْ رِحْمِہَا عورت کے رحم میں خون جمع ہوجائے اور اسی سے لفظ قَرْیَۃٌہے جو کہ مختلف لوگوں کو جمع کرنے والی جگہ کو کہتے ہیں اوراسی لیے اَقْرَائٌ (جو کہ القرئ کی جمع ہے، قافیہ شعر کے مقاصد و انواع اور بحروں کو کہا جاتا ہے کیونکہ قافیہ میں ہر شعر کے آخر میں ایک طرح کے لفظ جمع ہوجاتے ہیں ایک طرح کا ترنم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کہ یہ سابقہ اُمم کے قصص اور اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی، وعد وعید، ترغیب و ترہیب کو جمع کرنے والی کتاب ہے یا پھر
Flag Counter