Maktaba Wahhabi

136 - 180
المنکر) کی صفت کو ترک نہیں کرتا اسی طرح ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں تبلیغ قرآن کاپہلا قدم انذار و تبشیرہی ہے جو اس کو واپس اپنے اصلی مقام پر لا سکتا ہے اور اُمت محمدیہ کا اصل مقام تو قرآن مجید نے خو دبیان کیا ہے : {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} (آل عمران: 110) ’’تم بہترین اُمت ہو جولوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہو کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو۔ ‘‘ چنانچہ اس آیت میں جہاں اُمت محمدیہ کا مقام بیان ہوا ہے وہاں اس کو خیر اُمت بہترین اُمت کا لقب دے کر مقام کو واضح کیا گیا اور اس بہتری کی علت بھی بیان کر دی کہ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ہے، اور اسی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سبق کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کوپڑھایا تو ساتھ ہی یہ فرمایا تھا : ((اِحْفَظُوْہُ أَخْبِرُوْہٗ مَنْ وَرَائَکُمْ۔)) [1] ’’اس کو یاد کرو اور اپنے پچھلوں کو بھی اس کو بھی اس کی خبر دو۔ ‘‘ جہاں نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے کافرمان ربانی ہے وہاں یہ خصلت بہتری کی علامت ہے اور جہاں یہ اُمت کی بہتری کی علامت ہے وہاں یہ اللہ تعالیٰ کو بڑی ہی عمل پسند ہے چنانچہ ایک آدمی نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب اور پسند ہے تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ الْإِیْمَانُ بِاللّٰہِ ثُمَّ صِلَۃُ الرَّحِمِ ثُمَّ الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔))[2] ’’سب سے پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ کو اس کے ساتھ ایمان لانا لگتا ہے پھر صلہ رحمی
Flag Counter