Maktaba Wahhabi

71 - 180
’’میں ایک سورت کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کو زیادہ محبوب رکھتا ہوں کہ اس کے بدلے پورے قرآن کو بغیر ترتیل کے پڑھوں۔ ‘‘ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ترتیل کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔[1] اور فرماتے ہیں (ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) : ((لَا تُنْشِرْہُ نَشْرَ الرَّمْلِ وَلَا تہذوہ ہذالشِّعْرَ قِفُوْا عِنْدَ عَجَائِبِہِ وَحَرِّکُوْا بِہٖ الْقُلُوْبَ وَلَا یَکُنْ ہُمَّ أَحَدُکُمْ آخِرَ السُوْرَۃِ۔))[2] ’’قرآن مجید کو ریت کی طرح مت بکھیرو اور نہ ہی (اور ایک روایت میں لفظ ہیں لاتنشرہ نشر الدقل کہ کھجور کی گٹھلی کی طرح نہ پھینکو یعنی چبا چبا کر نہ پڑھو ) بالوں کی طرح جلدی کا ٹو (بعض نے یہ بھی معنی کیا ہے جو کہ صحیح ہے کہ نہ ہی اشعار کی طرح اس کو پڑھو۔ ‘‘ یعنی اتنا تیز نہ پڑھو کہ معانی کا خیال ہی نہ رہے اور نہ ہی اتنا آہستہ کہ حروف کی ساخت ہی بدل جائے اور وہ شعر لگیں یا جس طرح کھجور کھا کر گٹھلی پھینکنے میں دیر لگتی ہے اس طرح پڑ ھو بلکہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے اس طرح پڑھو جیسا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ((کان یقطع قراء تہ آیۃ آیۃ الحمدللّٰہ رب العالمین ثم یقف الرحمن الرحیم ثم یقف)) [3] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قراء ت کو ایک ایک آیت کرکے پڑھتے تھے الحمد للہ رب العلمین پڑھتے اور ٹھہر جاتے پھر الرحمن الرحیم پڑھتے اورٹھہر جاتے۔‘‘ اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی صفت بیان کی تو فرمایا کہ حرفًا حرفًا ہر ہر حرف الگ ہوتا بڑی ہی تنسیق و ترتیب (جس کو ترتیل کہاجاتا ہے) کے ساتھ پڑھتے۔[4]
Flag Counter