Maktaba Wahhabi

80 - 180
صفت تلاوت (ترتیل بنا م تجوید ) بھی متواتر ہے گویا کہ لفظ اور اس کی صفت دونوں لازم و ملزوم ہیں جس طرح ایک چیز کے ساتھ اس کی صفت لازمی ہوتی ہے۔ ‘‘ اب دیکھیں اگر ہم کہیں کہ ڈاکٹر صاحب آئے ہیں تو ظاہر ہے ڈاکٹری ان کی صفت ہے وہ جب آئے ہیں تو ڈاکٹری ساتھ لے کر آئے ہیں گھر چھوڑ کر تو نہیں آئے اسی طرح قرآن مجید اگر عربی زبان میں ہے تو اس کی صفت تلاوت یہ دونوں ہی ہم تک محفوظ پہنچی ہیں اس لیے جہاں ہم قرآن مجید کو متواتر سمجھ کر حاصل کرتے ہیں اس کی صفت بھی حاصل کرنا ہوگی اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے۔ اور اسی طرح میں قراء کرام سے بھی گزارش کروں گاکہ جہاں وہ قرآن مجید کی تلاوت کی نوک پلک کو سنوارنے میں اُنھوں نے وقت لگایا ہے وہ اس قرآن مجید کی فہم بھی حاصل کریں کیونکہ جب تلک عمل نہیں ہوگا اکیلا تلاوت کر لینا اس کے لیے نفع بخش نہیں ہوگا اور عمل کرنا علم پر موقوف ہے۔ اگر قرآن مجید کے معانی و مطالب و مفاہیم و مدعا کا پتہ نہیں ہوگا تو پھر وہ کیا عمل کرے گا اور کیسے کرے گا ؟ اگر یہ دونوں شعبے علماء و قراء اپنی اپنی انتہاء کو چھوڑ کر دونوں کو ملا کر چلیں گے تو ان شاء اللہ العزیز معاشرے کی ایک عظیم اکثریت ایک بہترین انسان عالم و قاری بنے گی جس سے بوڑھے اور بچے اور ادھیڑ عمر لاکھوں لوگ جو ناظرہ بھی پڑھنے پر قادر نہیں اور قرآن کے بارے بالکل نابلد ہیں، ان کی زندگیاں سدھرجائیں گی اور ان کی ان زندگیوں کے سدھرنے سے ایک اچھا معاشرہ قائم ہوگا اور قیامت کے روز اس نیکی کے سہرے علماء قراء کے سروں پر سجائے جائیں گے۔ اے میرے مسلمان بھائی ! یہ تھی قرآن مجید کے دوسرے حق کی پہلی شرط کہ ہم قرآن کو اس طرح پڑھیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے اور حق اس وقت تک ادا نہیں وہ سکتا جب تک ترتیل و حروف کی شناخت و پہچان اور ان کی ادائیگی کی صلاحیت حاصل نہ کی جائے جس کے بارے میں ہم براہین پیش کیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ لفظ کے بدلنے سے معانی بدلتے ہیں جس سے مراد الٰہی بھی بدلتی ہے اور بسااوقات تو نما زبھی باطل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے چنانچہ ان مختصر دلائل کو
Flag Counter