Maktaba Wahhabi

35 - 89
کی سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔سنّت کوخود اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب قرآنِ پاک میں حکمت کا نام دیا ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ} (سورۃ البقرہ:۱۵۱) ’’اور وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )انہیں کتابِ الٰہی اور حکمت سکھلاتے ہیں ۔‘‘ یہاں الحکمۃ کا معنیٰ سنّت ہے۔ اور اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کا فرمان ہے: {یُؤْ تِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّؤْتَ اَلْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِی خَیْرًا کَثِیْراً} (سورۃ البقرہ:۲۶۹) ’’اور وہ (اللہ) جسے چاہتا ہے حکمت سے سرفراز کرتا ہے اور جس شخص کو حکمت عطا کی گئی وہ خیرِکثیر دیا گیا۔‘‘ واضح اور روشن دلائل بھی’’ حکمت‘‘ کے نام سے موسوم ہونگے اور حق کو ظاہر کرنے والے واضح کلام کو بھی ’’حکمت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔جیسا کہ سابقہ سطور میں گزرچکا ہے۔ اور اسی سے ہی ’’الحکمۃ‘‘ حا اور کاف مفتوح یعنی لگام ہے جو گھوڑے کے منہ میں ہوتی ہے۔اسے حکمہ کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ گھوڑسوار جب اس لگام کو کھینچتا ہے تو وہ گھوڑے کو پیہم چلتے رہنے سے روک دیتی ہے تو گویا حِکمت ایک ایسا کلمہ ہے کہ جو شخص اسے سن لے وہ اسے روّشِ باطل پر چلتے رہنے سے روک دیتا ہے،حق کو اخذ کرنے، اُس سے اثرپذیر ہونے اور اللہ عزّوجلّ کی مقررکردہ حدود کا پاس کرنے کی دعوت دیتا ہے۔داعی کو چاہیے کہ وہ حکمت کیساتھ دعوت دے ،اسی کے ساتھ آغاز کرے اور اسی کا اہتمام کیے رہے۔ اگر مدعوّومخاطَب جفا کرے اور اُس کے پاس بعض اعتراضات بھی ہوں تو اُسے آیات واحادیث کے ’’مواعظِ حسنہ‘‘ کے ساتھ دعوت دیں ،جن میں وعظ ونصیحت اور ترغیب ہو، اوراگر اس کے پاس کوئی شُبہ ہوتو اس کے ساتھ احسن طریقہ سے’’مجادلہ ومناظرہ‘‘کریں ۔ اُس
Flag Counter