مصلحت کے مقابلے میں خرابی کے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ [احتساب] واجب نہیں، بلکہ حرام ہو گا۔‘‘
(۳)
والدین سے متعلقہ برائی کا ہاتھ سے روکنا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کو پاش پاش کر دیا جن کی پرستش ان کے والد اور قوم کرتی تھی۔
قرآن کریم میں ہے:
{إِذْ قَالَ لِأَبِیْہِ وَقَوْمِہِٓ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِيٓ أَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ۔قَالُوْا وَجَدْنَآ أَبَآئَ نَا لَہَا عٰبِدِیْنَ۔قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ أَنْتُمْ وَأَبَآؤُکُمْ فِی ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔قَالُوْآ أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ۔قَالَ بَلْ رَّبُّکُمْ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ الَّذِی فَطَرَہُنَّ وَأَنَا علٰی ذٰلِکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ۔وَتَاللّٰہِ لَأَکِیْدَنَّ أَصْنَامَکُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ۔فَجَعَلَہُمْ جُذٰذًا إِلاَّ کَبِیْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ}۔[1]
[ترجمہ:جب انہوں [ابراہیم علیہ السلام ] نے اپنے باپ اور قوم سے کہا:’’یہ کیا مورتیاں ہیں جن پر تم ڈیرے ڈالے رہتے ہو؟‘‘ وہ بولے:’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ان ہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا۔‘‘ آپ نے فرمایا:’’یقینا تم اور تمہارے باپ دادا بھی کھلی گمراہی میں مبتلا رہے۔‘‘ کہنے لگے:’’کیا تو ہمارے پاس کوئی سچی بات لایا ہے یا یوں ہی دل لگی کرنے والوں میں سے
|