Maktaba Wahhabi

253 - 492
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لَوْ أَقْرَرْتَ الشَّیْخَ فِی بَیْتِہِ لَأتَیْنَاہُ)’’ اگر آپ اِس بزرگ کو گھر میں ہی رہنے دیتے تو ہم خود ان کے پاس آ جاتے۔‘‘[1] تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:ان کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ہی زیادہ بہتر تھا۔اِس موقعہ پر ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مبارکباد دی۔[2] اور چونکہ ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہو چکے تھے تو آپ نے فرمایا: (غَیِّرُوْا ہٰذَا بِشَیْیٍٔ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ) ’’ اِس سفیدی کو کسی رنگ کے ساتھ بدل دو اور سیاہ رنگ لگانے سے بچو۔‘‘[3] جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام سلمی بنت صخر تھا اور کنیت ام الخیر تھی۔انھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ آئیے ان کے قبولِ اسلام کا واقعہ سنئے۔ اِس واقعہ سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ خود ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کتنی اذیتیں برداشت کیں۔اور انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر شدید محبت تھی ! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جن کی تعداد ۳۸ تھی ،جمع ہوئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اصرار کیا کہ دعوت کا کام اب خفیہ طور پر نہیں بلکہ ظاہر ہو کر کر نا چاہئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(یَا أَبَا بَکْرٍ ! إِنَّا قَلِیْلٌ)’’ ابو بکر ! ہم ابھی قلیل تعداد میں ہیں۔‘‘ لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ مسلسل اصرار کرتے رہے حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اِس پر تیار ہو گئے۔چنانچہ مسلمان مسجد حرام کے کونوں میں آگئے اور ہر شخص اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں تشریف فرما تھے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے لوگوں میں خطبہ دینا شروع کردیا۔وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگوں کو علی الاعلان بلانے والے پہلے شخص تھے۔ مشرکین کی طرف سے رد عمل یہ ہوا کہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں پر کود پڑے۔ان کی شدید پٹائی کی ، ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی ان کی زد میں آئے ، انھیں بہت مارا گیا بلکہ قدموں تلے روندا گیا۔بد بخت عتبہ بن ربیعہ ان کے قریب آیا اور انھیں پیوند لگے جوتے سے مارنے لگا۔اس نے ان کے چہرے کو بھی نشانہ بنایا اور ان کے پیٹ پر چڑھ گیا حتی کہ ان کی حالت یہ ہوگئی کہ چہرے اور ناک سے ان کی پہچان ممکن نہ تھی۔اسی دوران ان کے قبیلے(بنو تیم)کے لوگ دوڑتے
Flag Counter