Maktaba Wahhabi

278 - 492
مرتد ہونے والے لو گ کئی قسم کے تھے۔کچھ وہ تھے جنھوں نے ملتِ اسلام کو کلیتاً چھوڑ دیا اور کفر کی طرف واپس چلے گئے۔کچھ وہ تھے جنھوں نے جھوٹے مدعیان نبوت مثلا اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب وغیرہ کی پیروی کی۔اور کچھ وہ تھے جنھوں نے اسلام کے بعض احکام مثلا زکاۃ کا انکار کردیا تھا۔ یہ بہت بڑا فتنہ تھا۔جب اِس خطرناک فتنہ کی لہر اٹھی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا سد باب کرنے کیلئے مختلف اقدامات کئے جن کے نتیجے میں یہ فتنہ دم توڑ گیا۔ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی پالیسی اختیار کی کہ جس سے مسلمانوں کو تقویت ملی ، دشمنان اسلام کمزور پڑ گئے اور مرتدین اپنی سازشوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔جہاں کہیں مرتدین نے سر اٹھانے کی کوشش کی وہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر بھیجے جنھوں نے اِس فتنہ کو کچل کر رکھ دیا۔فتنۂ ارتداد کے خلاف جنگوں میں اسلامی فتوحات کے نتیجے میں بہت زیادہ اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے جنھیں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں پر ہی خرچ کیا۔اِس سے مسلمان مزید مضبوط ہو گئے اور روم وفارس کے دشمنانِ اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ 4۔ عہدِ صدیقی کی فتوحات فتنۂ ارتداد کے خلاف جیسے ہی جنگ ختم ہوئی اور جزیرۂ عرب میں استقرار بحال ہو گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی فتوحات کیلئے منصوبہ بندی کی۔آپ نے فتح عراق کیلئے دو فوجیں تیار کیں۔ان میں سے ایک کی قیادت انھوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اور دوسری کی قیادت حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سونپی۔چنانچہ ان فوجوں کے کفار کے ساتھ کئی معرکے ہوئے۔آخر کار اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عراق فتح کرنے کی توفیق دی اور ایک بڑا ملک مسلمانوں کے زیرِ اقتدار آگیا۔ اسی طرح فتح شام کیلئے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی فوج کے چار لشکر تیار کئے۔ پہلا لشکر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دمشق کی طرف روانہ ہوا۔اس کے تین دن بعد دوسرا لشکر حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تبوک اور بلقاء سے ہوتے ہوئے بصری کی طرف روانہ ہوا۔پھر تیسرا لشکر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ ہوا جس کی منزل مقصود حمص تھی۔چوتھا لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فلسطین کی جانب روانہ ہوا۔پھر کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جناب خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر حکم دیا کہ وہ عراق سے شام چلے جائیں اور چاروں لشکروں کو یرموک کے مقام پرخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جمع ہونے اور رومیوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم صادر کیا۔یہ جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فوجی حکمت عملی تھی کہ انھوں نے اسلامی فوج کے(کمانڈر ان چیف)کی حیثیت سے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کرکے پہلے مختلف راستوں سے روانہ کیا ، پھر انھیں ایک جگہ جمع ہو کر ایک ہی
Flag Counter