Maktaba Wahhabi

282 - 492
توحید ِ خالص سے عاری ہو گا۔انجام کے اعتبار سے بھی یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔توحید کو ماننے والے کا انجام جنت اور شرک کرنے والے کا انجام جہنم ہے۔ اللہ رب العزت فر ماتا ہے:﴿ اِنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ﴾ ’’ یقین کر لو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔‘‘[1] 2۔ اخلاص جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا دوسرا سبب اخلاص ہے جس کا معنی ہے:ہر عبادت کو خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے سر انجام دینا اور ریا کاری اور دکھلاوے سے بچنا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(لَن یُّوَافِیَ عَبْدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُولُ:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِی بِہَا وَجْہَ اللّٰہِ إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ) ’’ جوبندہ قیامت کے روز اللہ تعالی سے اِس حالت میں ملے گا کہ اس نے خالصتا اللہ کی رضا کیلئے یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اللہ تعالی اس پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا۔‘‘[2] اِس سے معلوم ہوا کہ عبادات میں اخلاص جہنم سے آزادی کا سبب بنتا ہے جبکہ اخلاص کے برعکس ریاکاری ، دکھلاوا اور تعریف سننے کی خواہش یا کسی دنیاوی غرض کا حصول مقصود ہو تو یہ چیز انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے۔چنانچہ جہنم میں سب سے پہلے جن تین لوگوں کو پھینکا جائے گا وہ ریاکاری کرنے والے ہی ہونگے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’ قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا۔ چنانچہ اسے لایا جائے گا ، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا یعنی اقرار کر لے گا۔ پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا:ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا:میں تیرے راستے میں قتال کرتے کرتے شہید ہو گیا تھا۔ اللہ تعالی کہے گا:تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے توقتال صرف اس لئے کیا تھا کہ تجھے جرأت مند کہا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کہا گیا۔پھر اللہ تعالی اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
Flag Counter