Maktaba Wahhabi

423 - 492
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آخرت کی فکر کرنے کی توفیق دے۔اور ہمارے دلوں کو نرم کرکے ان میں اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اپنے دین کی رغبت پیدا کردے۔ دوسرا خطبہ عزیز القدر بھائیو اور بہنو ! دل کیلئے عربی زبان میں(قلب)کا لفظ بولا جاتا ہے ، جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے: مَا سُمِّی الْقَلْبُ إِلَّا مِنْ تَقَلُّبِہِ فَاحْذَرْ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ قَلْبٍ وَّتَحْوِیْلِ ’’ قلب کو ’قلب ‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔لہذا تم قلب کی فکر کیا کرو کہ کہیں اس میں کوئی تبدیل واقع نہ ہو جائے۔‘‘ اور اس کی تصدیق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ (مَثَلُ الْقَلْبِ کَرِیْشَۃٍ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ ، تُقَلِّبُہَا الرِّیَاحُ ظَہْرًا لِبَطْنٍ) ’’ قلب کی مثال اُس پر کی سی ہے جو چٹیل زمین پر پڑا ہو اور ہوائیں اسے ایسا الٹ پلٹ کریں کہ کبھی وہ پیٹھ کے بل ہوتا تو کبھی پیٹ کے بل ہوتا ہے۔‘‘[1] یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دلوں کی کیفیت کے ایک جیسا نہ رہنے پر بہت فکر مند رہتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے کہا:یا رسول اللہ ! ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم جب تک آپ کے پاس رہتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ، دنیا سے بے رغبت ہو جاتے ہیں اور آخرت کو یاد کرنے والوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔لیکن جب آپ کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے مانوس ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی حالت عجیب سے محسوس ہوتی ہے ! تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لَوْ أَنَّکُمْ تَکُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِّنْ عِنْدِی کُنْتُمْ عَلٰی حَالِکُمْ ذَلِکَ ، لَزَارَتْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ فِی بُیُوتِکُمْ ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَائَ اللّٰہُ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ کَیْ یُذْنِبُوا ، فَیَغْفِرَ لَہُمْ) ’’میرے پاس سے نکلتے وقت جو تمھاری حالت ہوتی ہے اگر تم ہر وقت اسی میں رہو تو فرشتے تمھارے گھروں میں آکر تمھاری زیارت کرتے۔اور اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالی ایک نئی مخلوق کو لے آتا جو گناہ کرتی ، پھر وہ انھیں معاف کرتا۔‘‘[2] دل کی اِس بدلتی کیفیت کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ثابت قدمی کیلئے اکثر وبیشتر دعا کیا کرتے تھے۔
Flag Counter