طرف سے استغفار و توبہ ہوگی، رحمن و رحیم ربِّ کریم کی طرف سے اس کے لیے لازماً وسعتِ رزق اور خوش حالی ہوگی۔ مشہور مفسرِ قرآن شیخ محمد امین شنقیطی لکھتے ہیں:
’’یہ آیتِ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ گناہوں سے استغفار و توبہ کرنا فراخیٔ رزق ، تونگری اور خوش حالی کا سبب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے استغفار و توبہ کو بطور (شرط )اور تونگری اور خوش حالی کو بطور (جزا) ذکر فرمایا ہے۔‘‘[1]
۴: حضراتِ ائمہ احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ أَکْثَرَ مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ جَعَلَ اللّٰہُ لَہٗ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَّخْرَجًا، وَرَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحَسِبُ۔‘‘[2]
’’جس نے کثرت سے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، اللہ تعالیٰ اُسے ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اُسے
|