Maktaba Wahhabi

146 - 148
مولانا سید داؤد غزنوی جید عالم دین تھے ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا تمام علومِ اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی دو سال تک میں میانوالی جیل میں ان کے درس قرآن سے مستفیض ہوتا رہا۔ اس لحاظ سے میں انہیں اپنا استاذ تسلیم کرتا ہوں ۔رہائی کے بعد میں طیبہ کالج دہلی میں داخل ہو گیا اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد طیبہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پروفیسر ہو گیا۔ مولانا داؤد غزنوی سیاسی میدان میں اپنا ایک خاص مقام بنا چکے تھے۔ ان کی تقریروں کی سارے ہندوستان میں دھوم تھی مدت بعد ان سے لاہور میں جب کہ میں موسم گرما کی تعطیلات گزارنے پنجاب آتا تھا ملاقات ہوتی تھی تو مل کر بہت خوش ہوتے اور جیل کے بیتے دنوں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مستقل طور پر لاہور ہی میں رہتے تھے اور میں نے اپنے وطن سوہدرہ میں ڈیرے ڈال دیئے تھے جب کبھی اتفاق سے لاہور جانا ہوتا تو کبھی کبھی ان سے ملنے ان کی رہائش گاہ شیش محل روڈ چلا جاتا بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اچھی مہمان نوازی کرتے اور فرماتے حکیم صاحب! آپ نے سوہدرہ میں کیوں ڈیرے ڈال دیئے آپ کو لاہور میں آباد ہونا چاہیئے تھا میں جواب دیتا کہ میں نے سوہدرہ اس لئے رہائش اختیار کی کہ میں اپنے عزیزوں اور اہل قصبہ کی خدمت کر سکوں لیکن مجھے اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ جب بھی مولانا سید داؤد غزنوی سے ملاقات ہوتی تھی حالات حاضرہ پر تبصرہ ہوتا تھا مسیح الملک حکیم اجمل خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور ڈاکٹر انصاری رحمہم اللہ اجمعین کی شخصیت ضرور زیر بحث آتی۔ مولانا غزنوی ان حضرات کی ملی و سیاسی خدمات کا اعتراف کرتے۔ موقع کے لحاظ سے میں مولانا ظفر علی خان کے اشعار سناتا تو بہت محظوظ ہوتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا غزنوی سحر طراز مقرر اور انقلاب خیز خطیب تھے ان کی زبان میں دریا کی روانی پائی جاتی تھی وہ ایک سیاسی رہنما ہونے کے علاوہ ایک پختہ کار عالم دین تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ و تاریخ پر ان کو کامل دستگاہ تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ایک طرح سے ملکی سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اب ان کی زیادہ توجہ
Flag Counter