Maktaba Wahhabi

165 - 677
اسے لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔‘‘ و السلام علیک۔ (اور تجھ پر سلامتی ہو)‘‘[1] ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت ملنے کی مخالفت کی ہو۔ البتہ انھوں نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعض افعال کا انکار ضرور کیا ہے۔ خصوصاً جب حجر بن عدی قتل کیے گئے تو اس وجہ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے سخت باتیں ضرور کیں ۔ العواصم من القواصم کا منصف کہتا ہے: ’’ اکثر علماء کے نزدیک حجر بن عدی رحمہ اللہ تابعی تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ صفین میں شریک ہوئے۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو کوفہ کا گورنر بنایا تو وہ ایک بار خطبہ جمعہ دے رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے خطبہ کو اتنا طویل کیا کہ نماز کا وقت گزرنے کے قریب ہو گیا۔ حُجر بن عدی کھڑا ہو گیا اور اسے کنکری مارتے ہوئے پکارنے لگا۔ نماز، نماز، اور اسے اتنے پتھر مارے کہ لوگ بھی مشتعل ہو گئے اور وہ بھی اسے پتھر مارنے لگے۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کا پتا چلا تو انھوں نے اسے قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا کیونکہ ان کے نزدیک یہ لوگوں کو بغاوت پر اکسانا چاہتا تھا۔ شاید سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے استدلال کیا: ’’جب تم متحد و متفق ہو اور کوئی شخص تمہارے درمیان آ کر تفرقہ پھیلانا چاہے تو تم اسے قتل کر دو۔‘‘ ابن العربی نے لکھا: اگر یہ کہا جائے حجر ابن عدی کو قتل کر دیا گیا اور وہ صالح صحابی تھا، زیاد کے حکم پر اسے قیدی بنایا گیا پھر اسے باندھ کر قتل کر دیا گیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تحقیق کے لیے اور اس کے معاملے کی چھان بین کے لیے قاصد بھیجا۔ لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی حجر قتل ہو چکا تھا۔ تو ہم یہ کہیں گے ہمیں مکمل طور پر حجر کے قتل ہونے کا علم ہو گیا۔ لیکن کئی وجوہ سے اختلاف ہے۔ کچھ کہنے والے کہتے ہیں : اسے ظلماً قتل کیا گیا اور کچھ کہنے والے کہتے ہیں : اس کا قتل صحیح ہوا۔ اگر کوئی کہے درحقیقت اسے ظلماً ہی قتل کیا گیا۔ بشرطیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ اسے قتل کرنا ضروری تھا۔ ہم جواب میں کہیں گے کہ اصول یہ ہے کہ امام المسلمین کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو بطورِ سزا قتل کر دے لہٰذا جو کہتے ہیں کہ اسے ظلماً قتل کیا گیا تو اس پر اس دعویٰ کی دلیل لانا واجب ہے۔ اگر فقط ظلماً ہی قتل کیا گیا تھا تو پھر ایسا ضرور ہوتا کہ ہر گھر سے معاویہ پر لعنت کی جاتی۔ لیکن واقعہ اس کے برعکس ہے۔ چونکہ بغداد عباسی خلفاء کا
Flag Counter