Maktaba Wahhabi

202 - 677
معاملہ معلوم نہیں تو تم پر کوئی عیب نہیں ۔ (یعنی اس واقعہ میں مطلقہ کو بلا سبب اس کے گھر سے منتقل کرنے کی کوئی دلیل نہیں ۔) تو مروان کہنے لگا: اگر تیرے پاس یہ خبر ہے کہ فاطمہ بنت قیس اور اس کے خاوند کے رشتہ داروں کے درمیان کچھ اختلاف تھا تو وہ سبب یہاں بھی موجود ہے۔ گویا اس نے یہ بات کہہ کر فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کو بطورِ دلیل ماننے سے انکار کر دیا۔[1] جیسا کہ گزر چکا ہے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیّدنا معاویہ کے بعض اُمور پر ان کی گرفت بھی کی۔[2] اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب دیکھتیں کہ کسی مسئلہ میں کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سے غلطی ہوئی ہے تو ان کا بھی محاسبہ کرتیں ۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی ا للہ عنہما بیان کرتے ہیں : ’’جس نے بیت اللہ کی طرف ہدی (قربانی کا جانور) بھیجی ، اس پر وہ سب کچھ حرام ہو جاتا ہے جو حاجی و معتمر پر حرام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی ہدی نحر ہو جائے۔ حدیث کی راویہ عمرہ کہتی ہیں کہ اس موقع پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے جو کہا وہ صحیح نہیں ہے۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے پٹے ہاتھ سے بنائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے انہیں پہنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جانور میرے ابا جان کے سپرد کر دئیے۔ (تاکہ وہ مکہ لے جائیں ) ان کی قربانی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کچھ حرام نہیں ہوا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کیا تھا۔‘‘[3] نوٹ:....چند کبار صحابہ پر اس کے استدراکات کا تذکرہ اسی باب کی فصل دوم میں آئے گا۔ ان شاء اللّٰہ۔ جہاں تک عام مسلمانوں کے محاسبے کی مثالیں ہیں تو ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں : ۱۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی پوری زندگی نیکی کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی رہیں ۔ ایک بار آپ رضی اللہ عنہا نے صفا مروہ کے درمیان ایک عورت کو دیکھا جس نے ایسی چادر لی ہوئی تھی جس پر صلیب کی شکل کی دھاریاں تھیں ، تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے فرمایا: ’’اپنے کپڑے سے یہ نشانات مٹا دو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایسے نشانات دیکھتے تو انھیں
Flag Counter