Maktaba Wahhabi

233 - 677
’’اور تم رغبت رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو، اس کے پاس مال تھوڑا ہے اور حسن و جمال بھی نہیں رکھتی اس سے تو تم نفرت رکھتے ہو، اس لیے کہ جس یتیم لڑکی کے مال و جمال کی وجہ سے تمہیں رغبت ہو، اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا پورا مہر دینے کا ارادہ رکھتے ہو۔ ‘‘[1] ۲۔ حدیث کے ساتھ قرآن کی تفسیر: حدیث قرآن کی وضاحت اور تشریح کرتی ہے۔ اس لیے سنت کے ساتھ قرآن کی تفسیر کی اہمیت ظاہر ہوئی اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس ضمن میں وافر حصہ ملا تھا۔ چونکہ وہ کثرت سے سنت نبویہ روایت کرتی ہیں ، اس لیے وہ قرآن کے جن مقامات کو ابتدا میں سمجھ نہ سکتی تھیں ان کے متعلق وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فوراً سوال کرتی تھی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى﴾ (النجم: ۱۳) ’’حالانکہ بلاشبہ یقیناً اس نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔‘‘ جب ان سے اس کی تفسیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’اس امت میں سے میں نے ہی سب سے پہلے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ جبریل امین تھے میں نے انھیں اس صورت میں کبھی نہیں دیکھا جس پر انھیں تخلیق کیا گیا ہے، سوائے ان دو مواقع کے کہ میں نے انھیں آسمان سے نازل ہوتے ہوئے اس طرح دیکھا کہ ان کی عظیم تخلیق نے زمین و آسمان کے درمیان خلا کو پُر کر رکھا تھا۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر بھی اس کی مثال ہے: ﴿ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ﴾ (الفلق: ۴) ’’اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔‘‘ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات چاند کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
Flag Counter