Maktaba Wahhabi

257 - 677
خلفائے اربعہ اور سیرت معاویہ کے عہود مبارکہ میں لوگوں کے حالات میں تغیر و تبدل کی شاہد عدل تھیں چنانچہ ہشام بن عروہ[1] رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر عربوں کی ثقافت اور انساب کا عالم نہیں دیکھا۔‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسی روایات مروی ہیں جن میں اہل جاہلیت کی عادات، ان کی اجتماعی زندگی کی معلومات، ان کے رسم و رواج، طلاق کے طریقے، ان کے شادی بیاہ کی رسوم و رواج ، ان کی پوجا پاٹ اور ان کی باہمی جنگ و جدل وغیرہ کی خاطر خواہ معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ عربوں کے ہاں نکاح کی اقسام: مثلاً جاہلیت میں عربوں کے ہاں نکاح کے کون سے طریقے رائج تھے۔ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتایا کہ زمانہ ٔجاہلیت میں نکاح کی چار اقسام تھیں : ۱۔ایک طریقہ نکاح تو وہی تھا جو آج کل لوگوں میں رائج ہے۔ ایک مرد دوسرے مرد کے پاس جا کر اس کی زیر کفالت لڑکی یا اس کی بیٹی، بہن کے لیے منگنی کا پیغام دیتا ہے وہ اسے مہر دے کر اس لڑکی سے نکاح کر لیتا ہے۔ ۲۔نکاح کا دوسرا طریقہ زمانۂ جاہلیت میں یہ رائج تھا کہ کوئی مرد اپنی بیوی سے کہتا جب تو حیض سے پاک ہو جائے تو فلاں شخص کو اپنی شرم گاہ ادھار دے دینا۔ چنانچہ اس عورت کا خاوند اس سے علیحدہ ہو جاتا اور اس سے بالکل جماع نہ کرتا۔ یہاں تک کہ جس مرد کو اس کی بیوی نے اپنی شرم گاہ ادھار دی تھی اس کے نطفے سے اس کا حمل واضح ہو جاتا اور جب حمل واضح ہو جاتا اور اس کا خاوند اس سے جماع کرنا چاہتا تو کر لیتا اور ایسا وہ اس لیے کرتے تھے تاکہ ہونے والی اولاد ذہین، فطین اور جنگجو و نڈر پیدا ہو۔ اس نکاح کو نکاح استبضاع[3] کہتے تھے۔
Flag Counter