Maktaba Wahhabi

258 - 677
۳۔نکاح کا ایک اور طریقہ یہ رائج تھا کہ کم و بیش دس آدمی ایک عورت کے پاس اکٹھے ہوتے وہ تمام باری باری اس سے جماع کرتے۔ جب حمل ہو جاتا پھر وہ عورت بچہ جنتی تو کچھ ایام کے بعد وہ ان سب مردوں کو بلا بھیجتی جب وہ آ جاتے تو ان میں سے کسی ایک کو وہ کہتی کہ یہ تیرا بیٹا ہے اور عورت اپنے بیٹے کو اس مرد کے حوالے کرتی جسے وہ ان سب سے زیادہ پسند کرتی۔ وہ مرد اس سے انکار نہ کر سکتا۔ ۴۔نکاح کا چوتھا طریقہ یہ تھا کہ بہت سے مرد کسی عورت کے پاس جاتے وہ کسی کو اپنے پاس آنے اور زنا کرنے سے نہ روکتی۔ یہ کسبی اور زانیہ عورتیں ہوتیں وہ دعوت عام کے لیے اپنے گھروں کے دروازوں پر جھنڈے لٹکا دیتیں تاکہ جو بھی آنا چاہے وہ بلا رکاوٹ آ جائے۔ پھر جب ان عورتوں میں سے کسی کو حمل ٹھہر جاتا اور وہ بچے کو جنم دیتی تو وہ سب مرد اس کے ہاں جمع ہو جاتے وہ قیافہ شناس[1] کو بلاتے پھر وہ قیافہ شناس جس مرد کے بارے میں کہتا کہ یہ بچہ اس کا ہے تو عورت اس بچے کو اس مرد کی طرف منسوب کر دیتی۔[2] ((فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صلي اللّٰه عليه وسلم بِالْحَقِّ ہَدَمَ نِکَاحَ الْجَاہِلِیَّۃِ کُلَّہٗ، اِلَّا نِکَاحَ النَّاسِ الْیَوْمَ)) [3] ’’جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دیے سوائے اس نکاح کے جو لوگوں میں معروف و مروّج ہے۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جاہلیت کے حج کے متعلق مروی ہے: ’’قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ حج کرتے وقت مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے اور اپنے آپ کو ’’احمس‘‘ کہلواتے یعنی نڈر، بے خوف۔ جبکہ دیگر تمام عرب عرفات تک جاتے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ عرفات جائیں ۔ پھر وہاں وقوف کریں ۔ پھر وہاں سے لوٹیں ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ﴾ (البقرۃ: ۱۹۹)
Flag Counter