Maktaba Wahhabi

343 - 677
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا نعم البدل نہیں دیا۔ جب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائی جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو اس نے میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے (اپنے اموال سے) محروم کیا تو اس نے اپنے اموال کے ذریعے میرے ساتھ ہمدردی کی اور اللہ عزوجل نے مجھے اس سے اولاد عطا کی جب اس نے مجھے دیگر عورتوں کی اولاد سے محروم کر دیا۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے علم کے لحاظ سے افضل ہیں اور اس لحاظ سے امت نے بے حد نفع حاصل کیا اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دونوں سیّدات کے درمیان تفاضل قائم کرنے کے دوران مذکورہ بالا حدیث کا مفہوم سامنے رکھا۔ چنانچہ وہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’کیونکہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ابتدائے اسلام میں جو نفع پہنچایا کسی دوسرے کا نفع اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتا، چنانچہ اس موقع پر یہ نفع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت بڑا تھا۔ چونکہ اس نفع کے آپ اس وقت ضرورت مند تھے۔ گویا سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا دیا ہوا نفع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک محدود تھا۔ اس سے امت نے کوئی نفع حاصل نہ کیا اور نہ ہی سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تبلیغ کی، جس طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے امت نے عظیم نفع حاصل کیا اور نہ ہی دین ان کی تعلیمات کے بغیر مکمل ہوتا تو ان کے ذریعے جس نے بھی علم دین حاصل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تو ان سے نفع حاصل کرنے والوں کے واسطہ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی کمال ایمان حاصل ہو گیا۔ چنانچہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس پہلو سے افضل ہیں ۔‘‘ شیخ الاسلام نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا: ’’لیکن سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبوت کے آخری زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی۔ جبکہ دین تکمیل کے مراحل میں تھا تو انھیں علم و ایمان میں سے اتنا وافر حصہ ملا جتنا حصہ صرف انھیں ہی ملا جو ابتدائے زمانہ نبوت ہی میں حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس پہلو سے افضل ہیں ۔ کیونکہ امت کو جتنا فائدہ ان کے ذریعے سے ہوا اتنا فائدہ اور کسی کے ذریعہ سے نہیں ہوا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جتنی علم و سنت کی تبلیغ کی اتنی اور کسی نے نہیں کی۔‘‘[1]
Flag Counter