Maktaba Wahhabi

386 - 677
﴿ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ﴾ (التوبۃ: ۴۰) ’’اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی۔‘‘ پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حالات میں اپنی بیوی کے پاس ہی رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی یہ اندازہ نہ ہوا کہ وہ آپ کے خلاف سازش کر رہی ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے رہے کہ آپ اپنی بیماری کے دن انہی کے گھر میں گزاریں ۔ آپ اسی پاک و مطہر بیوی کی آغوش میں (سر رکھ کر) وفات پاتے ہیں ۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ آپ سے دھوکا کر رہی ہیں ؟[1] کوئی عقل مند اس میں ذرّہ بھر شک نہیں کرے گا کہ مذکورہ رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا گھناؤنا الزام لگایا جا رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت ہی برا ہے۔ خصوصاً جب الزام لگانے والے اپنے ’’ائمہ معصومین‘‘ کے بارے میں یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ وہ غیب کا علم جانتے تھے، ایسے فضول اور لغو الزامات کا جواب کئی ایک طریقوں سے بھی دیا گیا ہے۔[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر شیعوں کے ایسے الزامات کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے تھے، ردّ کرتے ہوئے لکھا: ’’کمزور ترین عقل والے پر بھی یہ مخفی نہیں کہ جو شخص ایسے کٹھن سفر (سفرِ ہجرت) میں کسی کو ہمراہی بنائے اور وہ جن لوگوں کے ساتھ رہتا ہو وہی اس کے دشمن ہوں اور اسے قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہوں اور شخص مذکور کے دوست اور مددگار اس کی مدد نہ کر سکتے ہوں تو یہ شخص کسی ایسے شخص کو کیسے اپنا ہم سفر بناتا ہے جو کسی اور کی بجائے اس سے اپنی دوستی جتاتا ہے اور یہ شخص اپنی پریشانی اس کے سامنے ظاہر کرتا ہو۔ حالانکہ وہ اندر سے اس کا دشمن ہو اور جس نے اسے ہمسفر بنایا ہو وہ یہ سمجھتا ہو کہ یہ اس کا دوست ہے۔ ایسا تو کوئی احمق ترین اور جاہل اعظم ہی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو مسخ کرے جو اس کے رسول کہ جو تمام لوگوں سے عقل، علم اور ذہانت و فطانت میں کامل ترین ہیں ، کی طرف ایسی جہالت اور کم عقلی کی باتیں منسوب کرتا
Flag Counter