Maktaba Wahhabi

488 - 677
اگر دل میں باطل شبہات جگہ بنا لیں تو اس کی زبان سے شکوک و شبہات اور وسوسے پھوٹنے لگتے ہیں اور جاہل سن کر یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ یہ اس کے وسعت علم کی دلیل ہے، حالانکہ یہ تو اس کی کم علمی اور عدم یقین کے سبب ہوتا ہے۔‘‘[1] نیز ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا: ’’شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجھے کہا: ’’جب تیرے دل پر مسلسل وسوسے پڑنا شروع ہو جائیں تو اپنے دل کو اسفنج کی طرح نہ بنا کہ وہ ہر قسم کے وساوس اور شبہات کو اپنے اندر جذب کرے اور اس سے پورے بدن میں وہی وسوسے سرایت کریں ۔ لیکن تو اپنے دل کو صاف شفاف اور ٹھوس شیشے کی طرح بنا لے، اس کے اوپر سے شبہات گزرتے رہیں لیکن اس میں گھس نہ سکیں ۔ تمہارا دل اپنی صفائی کی وجہ سے انھیں دیکھ ضرور لے لیکن اپنی مضبوطی کی وجہ سے انھیں اپنے آپ سے دُور رکھے۔ وگرنہ جب تو نے اپنے دل پر آنے والے ہر شبہ کو دل میں ڈال لیا تو وہ شبہات کے ٹھہرنے کی جگہ بن جائے گا۔ جیسا کہ اس نے کہا: میں نے شبہات سے بچنے کے لیے جس قدر اپنے استاد کی وصیت پر عمل کر کے فائدہ حاصل کیا مجھے نہیں پتا کہ اس ضمن میں میں نے کسی اور طریقے سے اتنا فائدہ حاصل کیا ہو۔‘‘[2] جب شبہات اس قدر خطرناک ہیں تو سلف صالحین بھی ان سے دُور رہنے کی تمنا کرتے تھے اور ان مجالس سے بچنے کی تلقین کرتے تھے جہاں شبہات کی گھٹائیں چھاتی تھیں ۔ امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا: خواہشات کے دو پیروکار محمد بن سیرین کے پاس آئے ۔ان دونوں نے کہا: اے ابوبکر! ہم تجھے ایک حدیث سنائیں گے۔ اس نے کہا: مجھے مت سناؤ۔ ان دونوں نے کہا: ’’ ہم تیرے سامنے کتاب اللہ کی ایک آیت پڑھتے ہیں ۔ اس نے کہا، تم مت پڑھو۔ تم میرے پاس سے اٹھو گے یا میں اٹھ جاؤں ۔ بقول راوی وہ دونوں چلے گئے۔ کسی نے کہا: اے ابوبکر اس میں کیا حرج تھا اگر وہ تجھ پر کتاب اللہ سے کوئی آیت پڑھتے۔ تو محمد بن سیرین نے کہا: مجھے یہ اندیشہ تھا کہ وہ دونوں مجھ پر کوئی آیت پڑھ کر اس میں تحریف کریں گے تو وہ میرے دل میں راسخ ہو جائے گی۔[3]
Flag Counter