Maktaba Wahhabi

513 - 677
.... قول و تذکرہ کے معانی میں بھی ہوتا ہے۔ [1] امام بخاری نے جو روایت ابن جریج سے نقل کی ہے وہ بھی اس کی تائید کرتی ہے، کہ عطاء کہتے ہیں کہ انھوں نے عبید بن عمیر کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش کے پاس ٹھہرتے تھے .... طویل حدیث ہے۔[2] دوسری روایت میں جو ابن شہاب سے مروی کہ عطاء نے کہا ، جابر بن عبداللہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ ہو جائے۔[3] ابو یعلی نے بنو خثعم کے ایک آدمی سے روایت کی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، میں نے کہا: کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! بقول راوی: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اللہ کے نزدیک کون سا عمل محبوب ترین ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ ایمان لانا.... طویل حدیث ہے۔[4] تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا۔ حالانکہ اصولی قاعدہ ہے کہ وضاحت کو ضرورت کے وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں اور اگر اس صحابی کی بات میں کوئی منکر بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار ضرور کرتے۔ چنانچہ خلاصۂ تحقیق یہ ہوا کہ شیعہ اس شبہ کے لیے جس حدیث سے استدلال کرتے ہیں وہ دراصل ضعیف ہے اور اگر بفرض محال یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو پھر بھی اس میں ایسے الفاظ موجود ہی نہیں جن کی بنا پر ام المومنین ، عفیفۂ کائنات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نشانہ بنایا جائے۔ و الحمد للّٰہ ثالثاً:.... یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی اپنی روایت ہے گویا وہ اعتراف کر رہی ہیں کہ یہ غلطی تھی اور انھوں نے اس سے توبہ کر لی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور اگر جس طرح روافض کہتے ہیں اس طرح ہوتا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود ہی اس حدیث کو کیوں روایت کرتیں ؟
Flag Counter