Maktaba Wahhabi

514 - 677
افضل یہ ہے کہ اگر حدیث صحیح ہو جائے تو اسے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی منقبت میں شمار کیا جائے۔ کیونکہ انھوں نے ہی اسے روایت کیا اور شریعت کی حفاظت اور اسے دوسروں تک منتقل کرنا ان کے نزدیک دیگر تمام کاموں سے زیادہ افضل و اولیٰ ہے۔ حتیٰ کہ اگر خود ان کی ذات ہی ہو۔ رابعًا:.... یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کی طرف سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ غیرت کھانے والی کو وادی کی بالائی جانب سے اس کے زیریں جانب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ خامسًا:.... یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کی بات پر سزا دے دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کا دفاع کیا۔ تو ان (رافضی) لوگوں کو مداخلت کا اختیار کس نے دیا؟وہ کون ہوتے ہیں اس معاملے کے بیچ آنے والے؟ ساتواں شبہ: اہل تشیع کہتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اس (سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) نے واویلا اور چیخ و پکار کی اور اپنا چہرہ پیٹا۔‘‘ اس شبہے کا ازالہ: علماء کے نزدیک یہ روایت منکر ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ایسی کوئی بات بھی ثابت نہیں ، ہاں ! یہ موجود ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’میری گود اور میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے۔ اس گھر میں میں نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی تو وہ میری گود میں تھے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر تکیہ پر رکھ دیا اور اپنی حماقت اور کم عمری کے سبب میں عورتوں کے ساتھ پیٹنے میں شامل ہو گئی اور اپنے چہرے پر مارنے لگی۔‘‘[1] اس روایت کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو کچھ ثابت ہے اس کے مخالف و معارض ہے کہ آپ پر بین و نوحہ نہیں کیا گیا۔ قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے کہنے لگے: اے بیٹو! تم مجھ سے کچھ سیکھ لو۔ کیونکہ تم جس سے بھی کچھ سیکھو گے وہ تمہارے لیے مجھ سے زیادہ خیر خواہ نہیں ہو گا۔ تم مجھ پر بین
Flag Counter