Maktaba Wahhabi

581 - 677
ٹھہرے رہنے کی خصوصی قرآنی نصیحت موجود تھی۔ لیکن یہ نصیحت اصلاح عامہ کی کوشش اور حاجت برآری کی مخالف نہیں ۔ اگر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ان دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرانے کا عزم لے کر آگے بڑھیں تو یہ امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے۔ وہ خلافت علی رضی اللہ عنہ کو تسلیم کر چکی تھیں ، نہ تو انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت توڑی اور نہ ان کے خلاف بغاوت کا ارادہ کیا۔ امام ابن بطال[1]رحمہ اللہ نے کہا: وہ اس حدیث ’’وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی جنھوں نے اپنا معاملہ عورت کے سپرد کیا۔‘‘ کے بارے میں سیّدنا ابوبکرہ[2] رضی اللہ عنہ کے موقف پر تبصرہ کر رہے تھے: جہاں تک ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث سے استدلال کا موقف ہے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کے نزدیک عائشہ رضی اللہ عنہا کے میدان جہاد میں نکلنے کی رائے ضعیف تھی۔ مہلب کہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ ابوبکرہ کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے پر تھے اور میدان جہاد میں جاتے وقت ان کے ساتھ تھے۔ جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا قتال کی نیت سے میدان عمل میں نہیں جا رہی تھیں ، بلکہ انھیں یہ کہہ کر آمادہ کیا گیا تھا کہ آپ میدان جہاد میں آگے بڑھیں تاکہ لوگوں کے درمیان صلح کروا سکیں ۔ کیونکہ آپ ان کی ماں ہیں اور وہ قتال کر کے آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اس لیے وہ نکل پڑیں اور ان کے ہمراہ بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جو گروہ بغاوت پر اڑ گیا تو وہ بغاوت کرنے والوں سے قتال کریں گے۔ ان میں ابوبکرہ بھی شامل تھے۔ اس رائے سے انھوں نے کبھی رجوع نہ کیا۔ پھر ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ساتھ کسی کے امیر ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی وہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی مخالف تھیں اور نہ امارت چھیننے کے لیے انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا۔ انھوں نے تو علی رضی اللہ عنہ سے صرف عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لینے کی وجہ سے مخالفت کی اور ان (کے قاتلوں ) پر حدود اللہ قائم کیے بغیر ان کو کھلا چھوڑنے پر ان کی مخالفت کی۔اس کے علاوہ ان کا کوئی مطالبہ نہ تھا۔[3]
Flag Counter